قرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں قبیلہ مزینہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا پھر ہم نے آپ سے بیعت کی، آپ کچھ قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے، میں نے آپ سے بیعت کی پھر اپنا ہاتھ آپ کی قمیص کے گریبان میں داخل کیا اور مہر نبوت کو چھوا۔ عروہ کہتے ہیں: میں نے معاویہ اور ان کے بیٹے کی قمیص کے بٹن جاڑا ہو یا گرمی ہمیشہ کھلے دیکھے، یہ دونوں کبھی بٹن لگاتے ہی نہیں تھے اپنے گریبان ہمیشہ کھلے رکھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4082]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/ الشمائل (58)، سنن ابن ماجہ/اللباس 11 (3578)، (تحفة الأشراف: 11079)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/434، 4/19، 5/35) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (4336) أخرجه ابن ماجه (3578 وسنده صحيح) والترمذي في الشمائل بتحقيقي (59 وسنده صحيح)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4082
فوائد ومسائل: 1: بٹن کھلے رکھنا اگر بطور تواضع اور اتباع نبی ؐہو تو مستحب اور باعث اجر ہے، مگر ہمارے ہاں بعض علاقوں میں یہ عمل بطور تکبربھی ہوتا ہے جس میں یہ لوگ اپنا گریبان بھی کھلا رکھتے ہیں، لہذا ان کی مشابہت سے بچنا ضروری ہے۔
2:صحابہ کرام رضی اللہ عنه رسول ؐ کی عادات کو بھی اپنے عمل کا حصہ بنا لیتے تھے جو یقینامحبت کا اظہار ہوتا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4082