عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرائیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس دو بار میری امامت کی، ظہر مجھے اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا اور سایہ جوتے کے تسمے کے برابر ہو گیا، عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ۱؎ ہو گیا، مغرب اس وقت پڑھائی جب روزے دار روزہ کھولتا ہے (سورج ڈوبتے ہی)، عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق ۲؎ غائب ہو گئی، اور فجر اس وقت پڑھائی جب صائم پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے یعنی جب صبح صادق طلوع ہوتی ہے۔ دوسرے دن ظہر مجھے اس وقت پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ۳؎ ہو گیا، عصر اس وقت پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا، مغرب اس وقت پڑھائی جب روزے دار روزہ کھولتا ہے، عشاء تہائی رات میں پڑھائی، اور فجر اجالے میں پڑھائی، پھر جبرائیل علیہ السلام میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہی وقت آپ سے پہلے انبیاء کا بھی رہا ہے، اور نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے ۴؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 393]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الصلاة 1 (149)، (تحفة الأشراف: 6519)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/333، 354) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ ایک مثل پر عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ ۲؎: شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے۔ ۳؎: یعنی برابر ہونے کے قریب ہو گیا۔ ۴؎: پہلے دن جبرئیل علیہ السلام نے ساری نمازیں اوّل وقت میں پڑھائیں، اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ ہر نماز کا اوّل اور آخر وقت معلوم ہو جائے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (583)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 393
393۔ اردو حاشیہ: ➊ نماز ان عبادت میں سے ہے کہ جبرائیل نے محض زبانی القاء کرنے کی بجائے عملی تربیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جزئیات سے آگاہ فرمایا۔ ➋ ظہر کے وقت میں سایہ ”تسمے کے برابر تھا۔“ اس سے اصلی سایہ کا اعتبار کرنے کی دلیل ملتی ہے۔ ➌ عصر کا وقت ایک مثل کے بعد سے شروع ہوتا اور دو مثل پر ختم ہو جاتا ہے۔ ➍ اس حدیث میں مغرب کا وقت ایک ہی بیان ہوا ہے۔ دوسری احادیث کی روشنی میں اس میں غروب شفق تک توسع ہے۔ ➎ ان اوقات کو فقہی اصطلاح میں ”اوقات ادا“ کہا جاتا ہے۔ باقی ”اوقات قضا“ کہلاتے ہیں۔ ➏ ”آپ سے پہلے انبیاء کے یہی اوقات ہیں۔“ کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے لیے بھی اسی طرح اوقات متعین کیے گیے تھے نہ کہ ان پر پانچ نمازیں فرض تھی۔ «والله أعلم» اس سے نماز کے اوّل وقت اور آخری وقت کی تحدید و تعیین ہو جاتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان دونوں اوقات میں ادا کی گئی نماز صحیح ہے اور اسی طرح دونوں اوقات کے درمیان کا وقت بھی نماز کا وقت ہے، یوں ہر نماز کے لیے تین اوقات کا اثبات ہوا۔ لیکن ان میں افضل وقت کون سا ہے؟ وہ دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ وہ اوّل وقت ہے سوائے نماز عشاء کے کہ اس کو تاخیر سے پڑھنا افضل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل بھی یہی تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 393