الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
1. باب الصَّلاَةِ مِنَ الإِسْلاَمِ
1. باب: نماز کی فرضیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 392
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ نَافِعِ بْنِ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ، بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: أَفْلَحَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ، دَخَلَ الْجَنَّةَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ
اس سند سے بھی ابوسہیل نافع بن مالک بن ابی عامر سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے باپ کی قسم! ۱؎ اگر اس نے سچ کہا تو وہ بامراد رہا، اور اس کے باپ کی قسم! اگر اس نے سچ کہا تو وہ جنت میں جائے گا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 392]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 5009) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یہ قسم عادت کے طور پر ہے، بالارادہ نہیں، یا غیر اللہ کی قسم کی ممانعت سے پہلے کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: شاذ بزيادة وأبيه

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1891 مختصرًا) صحيح مسلم (11)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 392 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 392  
392۔ اردو حاشیہ:
اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کی قسم کھائی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے، اس کی بابت علماء نے کہا ہے کہ یہ واقعہ ممانعت سے پہلے کا ہے یا پھر اس کی حیثیت بغیر قصد کے عادت کے طور پر قسم کھانے کی ہے جو قرآن کریم کی آیت «لا يواخذ كم الله باللغو فى ايمانكم» [البقره: 2؍ 225]
اللہ تعالیٰ تم سے تمہاری لغو قسموں پر مواخذہ نہیں کرے گا۔ کی رُو سے معاف ہے۔ تاہم یہ عادت صحیح نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں میں جہالت اور مشرکانہ عقیدے عام ہیں، ایسے ماحول میں غیر اللہ کی قسم کھانے سے سختی کے ساتھ رکنے اور دوسروں کو روکنے کی شدید ضرورت ہے تاکہ لوگ شرک سے بچ سکیں۔ ویسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت میں الفاظ «وابيه» قسم ہے اس کے باپ کی۔ کو شاذ قرار دیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 392