الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْأَقْضِيَةِ
کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
31. باب فِي الْقَضَاءِ
31. باب: قضاء سے متعلق (مزید) مسائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3637
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ:" أَنَّ رَجُلًا خَاصَمَ الزُّبَيْرَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِ الزُّبَيْرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ: اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: اسْقِ، ثُمَّ احْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسَبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ: فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ سورة النساء آية 65".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرۃ کی نالیوں کے سلسلہ میں جھگڑا کیا جس سے وہ سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: پانی کو بہنے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنے کھیت سینچ لو پھر پانی کو اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو یہ سن کر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! یہ آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں نا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنے کھیت سینچ لو اور پانی روک لو یہاں تک کہ کھیت کے مینڈھوں تک بھر جائے۔ زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں یہ آیت «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك» قسم ہے تیرے رب کی وہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ کو اپنا فیصل نہ مان لیں (سورة النساء: ۶۵) اسی بابت اتری ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3637]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المساقاة 6 (2360)، 8 (2362)، الصلح 12 (2708)، تفسیر سورة النساء 12 (4585)، صحیح مسلم/الفضائل 36 (2357)، سنن الترمذی/الأحکام 26 (1363)، تفسیر النساء (3207)، سنن النسائی/القضاة 26 (5418)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 2 (15)، الرھون 20 (2480)، (تحفة الأشراف: 5275)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/165) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2359، 2360) صحيح مسلم (2357)

   صحيح البخارياسق يا زبير ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر لأحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم
   صحيح مسلماسق يا زبير ثم أرسل الماء إلى جارك فغضب الأنصاري فقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتلون وجه نبي الله ثم قال يا زبير اسق ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر لأحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا
   سنن أبي داوداسق يا زبير ثم أرسل إلى جارك فغضب الأنصاري فقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتلون وجه رسول الله ثم قال اسق ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر لأحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك
   سنن النسائى الصغرىاسق يا زبير ثم أرسل الماء إلى جارك فغضب الأنصاري فقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتلون وجه رسول الله ثم قال يا زبير اسق ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر أحسب أن هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون
   سنن ابن ماجهاسق يا زبير ثم أرسل الماء إلى جارك فغضب الأنصاري فقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتلون وجه رسول الله ثم قال يا زبير اسق ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر لأحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3637 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3637  
فوائد ومسائل:

کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین باوجود صحابی ہونے کے بشری خطائوں کے مرتکب ہوجاتے تھے۔
اور وہ کسی طرح معصوم نہ تھے۔
ان جزوی اور انفرادی تقصیرات کے باوجود کرہ ارض پر پائے جانے والے تمام طبقات انسانی میں ان صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا شرف وفضل غیر متنازع ہے۔
کہ اللہ عزوجل نے انھیں اپنے نبی کریمﷺ کی صحبت اور اپنے دین کی نصرت تقویت اور اشاعت کےلئے منتخب فرمایا تھا۔


قدرتی ندی نالوں اور دریائوں کے پانی کی تقسیم کا یہی شرعی حل ہے۔
کہ اولا مصالحت سے تمام شرکاء اعتدال سے استفادہ کریں۔
لیکن اگر کوئی بعد والا ہٹ دھرمی دکھائے تو پھر پہلے والے کا حق فائق ہے۔
اور جائز ہے کہ وہ اپنے کھیتوں کو خوب سیراب کرکے بعد والے کےلئے پانی چھوڑے۔


سورہ نساء کی یہ آیت مبارکہ (فَلَا وَرَبِّكَ) مسلمانو ں کے شرعی اور معاشرتی تمام امور کومحیط اور شامل ہے۔
اور واجب ہے کہ قرآن وسنت کے فیصلوں کو برضا ورغبت تسلیم کیا جائے ورنہ سرے سے ایمان ہی خطرے میں ہوسکتا ہے۔
عافانا اللہ منه و رزقنا اتباعه۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3637   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5418  
´حاکم پہلے نرمی کرنے کے لیے حکم دے سکتا ہے۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انصار کے ایک شخص نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرہ کی نالیوں کے سلسلے میں جھگڑا کیا، (جن سے وہ باغ کی سینچائی کرتے تھے) اور مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے، انصاری نے کہا: پانی کو بہتا چھوڑ دو، تو انہوں نے انکار کیا، ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقدمہ پیش کیا، تو آپ نے فرمایا: زبیر! سینچائی کر لو پھر پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو، انصاری کو غصہ آ گیا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5418]
اردو حاشہ:
دیکھیے‘حدیث:5409
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5418   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2480  
´وادیوں سے آنے والے پانی کا استعمال کیسے کیا جائے۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک انصاری ۱؎ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حرہ کے نالے کے سلسلے میں جس سے لوگ کھجور کے درخت سیراب کرتے تھے، (ان کے والد) زبیر رضی اللہ عنہ سے جھگڑا کیا، انصاری کہہ رہا تھا: پانی کو چھوڑ دو کہ آگے بہتا رہے، زبیر رضی اللہ عنہ نہیں مانے ۲؎ بالآخر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ لے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر (پانی روک کر) اپنے درختوں کو سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو، انصاری نے یہ سنا تو ناراض ہو گیا اور بولا: اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2480]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
جس طرف سے پانی آ رہا ہو اس طرف کے باغ اور کھیت کو پہلے پانی لینے کا حق ہے۔

(2)
نبئ اکرم ﷺنے پہلے جو فیصلہ دیا تھا اس میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا جائزحق دین کےساتھ ساتھ فریق ثانی کی ضرورت کوبھی مدنظر رکھتےہوئے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کوتھوڑا سا ایثار کرنے کا مشورہ دیا تھا اس انداز کی صلح شرعاً درست ہے۔

(3)
رسول اللہ ﷺکا دوسرا فرمان انصاف کے مطابق فیصلہ تھا جس میں انصاری کودی گئی رعایت واپس لے لی گئی اس میں اس کو ایک لحاظ سے سزا دیتےہوئے انصاف کو قائم رکھا گیا۔

(4)
غصے کی حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تاہم رسول اللہ ﷺمعصوم تھے وہ غصےکی حالت میں بھی غلط فیصلہ نہیں دیتے تھے۔

(5)
رسول اللہﷺ پرایمان میں صرف ظاہری اطاعت شامل نہیں بلکہ دل کی پوری آمادگی سےاطاعت اورہرقسم کےشک وشبہ سےمکمل اجتناب ضروری ہے۔

(6)
کسی اختلافی مسئلےمیں جب حدیث نبوی آ جائے تو سے تسلیم کرنا فرض ہے۔

(7)
قرآن مجید کی طرح حدیث نبوی کی تعمیل بھی فرض ہے۔

(8)
کھجور کے درخت کے اردگرد پانی کےلیے جگہ بنائی جاتی ہے جسے تھالہ کہتے ہیں۔
درخت کا تھالہ بھر جائے تو پانی دوسرے درخت کی طرف چھوڑ دیا جائے۔
کھیت میں پانی دینے کےلیےاتنا پانی روکنا چاہیے کہ پاوں کےٹخنے تک پانی کھڑا ہو جائے جیسے کہ اگلی حدیث میں صراحت ہے۔

(9)
آیت اس بارے میں نازل ہوئی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ واقعہ اوراس قسم کے دوسرے واقعات اس حکم میں داخل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2480   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6112  
حضرت عبداللہ بن زبیر بیان رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی کا، حرہ کی نالیوں کے بارے میں، جن سے وہ نخلستان کو پانی پلاتے، رسول اللہ ﷺ کے پاس، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے جھگڑا ہوا، انصاری نے کہا، پانی کو چھوڑئیے، وہ بہتا رہے ‎، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے انکار کیا، رسول اللہﷺ کے سامنے جھگڑا پیش ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے زبیر! بقدر ضرورت زمین کو سیراب کر لواور پھر پانی پڑوسی کے لیے چھوڑ دو۔ انصاری عصہ میں آ گیااور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6112]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شراج:
شرج کی جمع ہے،
نالی۔
(2)
سرح الماء:
پانی چھوڑ دیجئے،
اسے روکئے نہیں۔
فوائد ومسائل:
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی زمین پہلے واقع تھی اور اس انصاری صحابی کی زمین ان کے بعد تھی،
اس لیے پہلے حق حضرت زبیر کا تھا،
جب حضرت زبیر نے کچھ پانی لگا لیا تو انصاری نے کہا،
پانی میری طرف آنے دیجئے،
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا،
میری ضرورت پوری نہیں ہوئی،
اس لیے میں ابھی نہیں چھوڑوں گا،
جھگڑا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے زبیر کے حق کی بنا پر انہیں کہا،
بقدر کفایت پانی لگا لو،
رکاوٹوں تک پانی نہ پہنچاؤ،
پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو،
اس طرح آپ نے صلح جوئی کے لیے یہ مشورہ دیا،
یہ اصولی فیصلہ نہ تھا،
لیکن انصاری چاہتا تھا،
اس کی رعایت کی جائے،
اس لیے غصہ میں آ گیا اور ایسی بات کہہ دی،
جو ایک مسلمان کے لیے زیبا نہیں ہے،
بلکہ کفر و ارتداد کا باعث ہے،
لیکن چونکہ ابھی ابتدائی حالات تھے اور اس نے غیر شعوری طور پر بلا سوچے سمجھے یہ بات کہہ دی تھی،
اس لیے آپ نے عفوودرگزر سے کام لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر پیغمبر کے مقام و مرتبہ کی تعیین کرتے ہوئے یہ ہدایت فرمائی کہ ایمان دار کے لیے ضروری ہے،
وہ آپ کا فیصلہ دل و جان سے قبول کرے اور اس کے بارے میں زبان پر تو کیا لانا ہے،
دل میں بھی ناگواری محسوس نہ کرے،
چونکہ انصاری نے جذبات کی رو میں بہہ کر اپنی رعایت کو حضرت زبیر کی رعایت سمجھا،
اس لیے آپ نے پھر دو ٹوک فیصلہ سنا دیا اور پہلے زمین والے کے حق کی تعیین کر دی کہ وہ منڈیر بھرنے تک پانی لگانے کا حقدار ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6112   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2360  
2360. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے انھوں نے بیان کیا کہ ایک انصاری نے حضرت زبیر ؓ کے خلاف نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حرہ کے برساتی نالے کے متعلق مقدمہ پیش کیا جس سے وہ اپنے کھجور کے درختوں کو سیراب کیاکرتے تھے۔ انصاری نے کہا کہ پانی چھوڑے رکھو کہ چلتا رہے لیکن حضرت زبیر ؓ نے اس کامطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ نبی کریم ﷺ کے حضور دونوں مقدمہ لے کرحاضر ہوے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ سے فرمایا: اے زبیر!(اپنا نخلستان) سیراب کرکے پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑدو۔ یہ سن کر انصاری ناراض ہوکر کہنے لگا: یہ(فیصلہ آپ نے) اس بنا پر(کیا ہے) کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد بھائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: اے زبیر!اپنے باغ کو سیراب کرو اور پھر پانی روکے رکھو یہاں تک کہ وہ منڈیر تک چڑھ جائے۔ حضرت زبیر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی ہے: نہیں نہیں تیرے رب کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2360]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اور آیت کریمہ اطاعت رسول کریم ﷺ کی فرضیت پر ایک زبردست دلیل ہے اور اس امر پر بھی کہ جو لوگ صاف صریح واضح ارشاد نبوی سن کر اس کی تسلیم میں پس و پیش کریں وہ ایمان سے محروم ہیں۔
قرآن مجید کی اور بھی بہت سے آیات میں اس اصول کو بیان کیا گیا ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہے ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾ (الأحزاب36)
کسی بھی مومن مرد اور عورت کے لیے یہ زیبا نہیں کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سن لے تو پھر اس کے لیے اس بارے میں کچھ اور اختیار باقی رہے جائے۔
اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلا ہوا گمراہ ہے۔
اب ان لوگوں کو خود فیصلہ کرنا چاہئے جو آیات قرانی و احادیث نبوی کے خلاف اپنی رائے اور قیاس کو ترجیح دیتے ہیں یا وہ اپنے اماموں، پیروں، مرشدوں کے فتاووں کو مقدم رکھتے ہیں۔
اور احادیث صحیحہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال دیتے ہیں۔
ان کو خود سوچنا چاہئے کہ ایک انصاری مسلمان صحابی نے جب آنحضرت ﷺ کے ایک قطعی فیصلہ کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا تو اللہ پاک نے کس غضبناک لہجہ میں اسے ڈانٹا اور اطاعت نبو ی کے لیے حکم فرمایا۔
جب ایک صحابی انصاری کے لیے یہ قانون ہے، تو اور کسی مسلمان کی کیا وقعت ہے کہ وہ کھلے لفظوں میں قرآن و حدیث کی مخالفت کرے اور پھر بھی ایمان کا ٹھیکدار بنا رہے۔
اس آیت شریفہ میں منکرین حدیث کو بھی ڈانٹا گیا ہے اور ان کو بتلایا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ جو بھی امور دینی میں ارشاد فرمائیں آپ کا وہ ارشاد بھی وحی الٰہی میں داخل ہے جس کا تسلیم کرنا اسی طرح واجب ہے جیسا کہ قرآن مجید کا تسلیم کرنا واجب ہے۔
جو لوگ حدیث نبوی کا انکار کرتے ہیں وہ قرآن مجید کے بھی منکر ہیں، قرآن و حدیث میں باہمی طور پر جسم اور روح کا تعلق ہے۔
اس حقیقت کا انکاری اپنی عقل و فہم سے دشمنی کا اظہار کرنے والا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2360   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2360  
2360. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے انھوں نے بیان کیا کہ ایک انصاری نے حضرت زبیر ؓ کے خلاف نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حرہ کے برساتی نالے کے متعلق مقدمہ پیش کیا جس سے وہ اپنے کھجور کے درختوں کو سیراب کیاکرتے تھے۔ انصاری نے کہا کہ پانی چھوڑے رکھو کہ چلتا رہے لیکن حضرت زبیر ؓ نے اس کامطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ نبی کریم ﷺ کے حضور دونوں مقدمہ لے کرحاضر ہوے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ سے فرمایا: اے زبیر!(اپنا نخلستان) سیراب کرکے پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑدو۔ یہ سن کر انصاری ناراض ہوکر کہنے لگا: یہ(فیصلہ آپ نے) اس بنا پر(کیا ہے) کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد بھائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: اے زبیر!اپنے باغ کو سیراب کرو اور پھر پانی روکے رکھو یہاں تک کہ وہ منڈیر تک چڑھ جائے۔ حضرت زبیر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی ہے: نہیں نہیں تیرے رب کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2360]
حدیث حاشیہ:
(1)
نہریں دو قسم کی ہوتی ہیں:
مملوک اور غیر مملوک۔
جو غیر مملوک ہیں ان کی پھر دو قسمیں ہیں:
ایک بڑے دریا جیسے راوی اور چناب وغیرہ اور دوسرے چھوٹے چھوٹے برساتی نالے جو بارش وغیرہ سے بہہ پڑتے ہیں۔
عنوان سے مراد برساتی اور قدرتی نالے ہیں۔
ان میں پانی محض اللہ کے فضل سے آتا ہے۔
اس میں کسی کی محنت کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔
اس میں عوام شریک ہوتے ہیں، بظاہر ان میں کسی کو کسی وقت رکاوٹ پیدا نہیں کرنی چاہیے۔
امام بخاری ؒ نے ان برساتی نالوں کے پانی کو ضرورت کے وقت روکنے کا جواز ثابت کیا ہے۔
(2)
واضح رہے کہ "حرہ" پتھریلی زمین کو کہتے ہیں۔
مدینہ طیبہ کے مشرق و مغرب میں زمین آتش فشانی لاوے پر مشتمل ہے۔
اسی علاقے کو "حرہ" کہتے ہیں۔
وہاں ایک برساتی نالا بہتا تھا جس سے حضرت زبیر ؓ اپنی زمین سیراب کرتے تھے۔
ان کا باغ بالائی علاقے میں تھا اور ایک انصاری کا باغ نشیبی علاقے میں، اس لیے حضرت زبیر ؓ پانی روک کر اپنے باغ کو سیراب کرتے تھے جبکہ انصاری کا مطالبہ تھا کہ پانی روکا نہ جائے بلکہ اسے جاری رکھا جائے۔
اس سے آگے وہی تفصیل ہے جسے حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
(3)
اس سے معلوم ہوا کہ بالائی علاقے پر واقع باغ کو سیراب کرنے کے لیے برساتی نالے کو روکا جا سکتا ہے تاکہ پانی پودوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔
جو ندی نالے وادیوں سے نکلیں یا بارش آنے سے بہہ پڑیں ان کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جس کی زمین اوپر ہو گی، اس کا حق ہے کہ پانی روک کر اپنی زمین کو سیراب کرے، اس قدر بندش کرے کہ پانی فصل کی جڑوں تک کے لیے کافی ہو پھر نیچے والے کے لیے اسے چھوڑ دے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2360