سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری کے باغ میں ان کے کھجور کے کچھ چھوٹے چھوٹے درخت تھے، اور اس شخص کے ساتھ اس کے اہل و عیال بھی رہتے تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ سمرہ رضی اللہ عنہ جب اپنے درختوں کے لیے جاتے تو انصاری کو تکلیف ہوتی اور ان پر شاق گزرتا اس لیے انصاری نے ان سے اسے فروخت کر دینے کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا، پھر اس نے ان سے یہ گزارش کی کہ وہ درخت کا تبادلہ کر لیں وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ سے اس واقعہ کو بیان کیا، تو آپ نے بھی ان سے فرمایا: ”اسے بیچ ڈالو“ پھر بھی وہ نہ مانے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے درخت کے تبادلہ کی پیش کش کی لیکن وہ اپنی بات پر اڑے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم اسے ہبہ کر دو، اس کے عوض فلاں فلاں چیزیں لے لو“ بہت رغبت دلائی مگر وہ نہ مانے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم «مضار» یعنی ایذا دینے والے ہو“ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری سے فرمایا: ”جاؤ ان کے درختوں کو اکھیڑ ڈالو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3636]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4633) (ضعیف)» (محمد بن علی باقر نے سمرة رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال ابن التركماني في الجوھر النقي : ’’ ذكر ابن حزم أنه منقطع لأن محمد بن علي لا سماع له من سمرة‘‘ (6 / 157) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 129