قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے ارادے سے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پانی اور بیر کی پتی سے غسل کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 355]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 188
´کافر جب اسلام لائے تو اس کے غسل کرنے کا بیان۔` قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اسلام لائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کرنے کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 188]
188۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ غسل جمہور اہل علم کے نزدیک مستحب ہے تاکہ اسے احساس ہو کہ میں اندرونی اور بیرونی طور پر دونوں طرح کی نجاست اور میل کچیل سے پاک صاف ہو گیا ہوں بلکہ بعض روایات کے مطابق حجامت اور ختنے کرانے کا بھی حکم ہے، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کلیب رضی اللہ عنہ کو، جب وہ مسلمان ہوئے، حکم فرمایا: «ألق عنک شعر الکفر»”اپنے سے کفر کے بال اتار دو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور صحابی کو حکم فرمایا: «ألق عنک شعر الکفر و اختتن»”اپنے سے کفر کے بال زائل کرو (حجامت کراؤ) اور ختنہ کراؤ۔“[سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 383] شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ دیکھیے: [صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، رقم: 383] اور کپڑے بھی تبدیل کروائے جائیں تاکہ اسے مکمل طور پر تبدیلی کا احساس ہو اور وہ اپنے آپ کو کفر کی آلودگی سے پاک محسوس کرے۔ میل کچیل بھی دور ہو جائے گی۔ ➋ بیری کے پتے میل کچیل دور کرنے کے لیے ہی ہیں۔ آج کل صابن یہ کام دے سکتا ہے۔ ➌ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ غسل واجب ہے، اس لیے کہ آپ نے اس کا حکم فرمایا اور حکم وجوب کا تقاضا کرتا ہے اور کافر عام طور پر غسل جنابت نہیں کرتے، کریں بھی تو صحیح نہیں کرتے، لہٰذا وہ جنبی ہی رہتے ہیں، اس لیے پاک ہونے کے لیے غسل واجب ہے۔ حدیث کے ظاہر الفاظ بھی ان کے مؤید ہیں، اس لیے وجوب غسل کا موقف ہی قوی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 188