الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
47. باب الرُّجُوعِ فِي الْهِبَةِ
47. باب: ہبہ کر کے واپس لے لینا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 3540
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَثَلُ الَّذِي يَسْتَرِدُّ مَا وَهَبَ كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَقِيءُ فَيَأْكُلُ قَيْئَهُ، فَإِذَا اسْتَرَدَّ الْوَاهِبُ فَلْيُوَقَّفْ، فَلْيُعَرَّفْ بِمَا اسْتَرَدَّ، ثُمَّ لِيُدْفَعْ إِلَيْهِ مَا وَهَبَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہدیہ دے کر واپس لے لینے والے کی مثال کتے کی ہے جو قے کر کے اپنی قے کھا لیتا ہے، تو جب ہدیہ دینے والا واپس مانگے تو پانے والے کو ٹھہر کر پوچھنا چاہیئے کہ وہ واپس کیوں مانگ رہا ہے، (اگر بدل نہ ملنا سبب ہو تو بدل دیدے یا اور کوئی وجہ ہو تو) پھر اس کا دیا ہوا اسے لوٹا دے۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3540]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الھبات2 (2378)، سنن النسائی/الہبة 2 (3719)، (تحفة الأشراف: 8722، 8660)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/75) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   سنن أبي داودمثل الذي يسترد ما وهب كمثل الكلب يقيء فيأكل قيئه فإذا استرد الواهب فليوقف فليعرف بما استرد ثم ليدفع إليه ما وهب

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3540 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3540  
فوائد ومسائل:
فائدہ: ہدیہ دے کر واپس لینا اخلاق ومروت کے منافی ہے۔
علاوہ ازیں کسی کو از خود دے کر اس سے واپس لینا اس کے لئے بے عزتی اور تکلیف کا باعث ہے۔
بنا بریں اس عمل کی حوصلہ شکنی کےلئے یہ حکم دیا گیا کہ سب کے سامنے اس سے پوچھا جائے کہ دینے اور دے کر لینے کامقصد کیا ہے؟ ایسا تو نہیں کہ دوسرے کی تذلیل مقصود ہو؟ اور یہ ارشاد تحذیر کےلئے ہے۔
یعنی اس مذموم فعل کی شناعت کو مزید واضح کرنے کےلئے تاکہ انسان اس طرح کرنے سے بچے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3540