الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
41. باب فِيمَنْ أَحْيَا حَسِيرًا
41. باب: ناکارہ جانور کو کارآمد بنا لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3525
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ حَمَّادٍ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، يَرْفَعُ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" مَنْ تَرَكَ دَابَّةً بِمَهْلَكٍ فَأَحْيَاهَا رَجُلٌ، فَهِيَ لِمَنْ أَحْيَاهَا".
شعبی سے روایت ہے، وہ اس حدیث کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص کوئی جانور مر کھپ جانے کے لیے چھوڑ دے اور اسے کوئی دوسرا شخص (کھلا پلا کر) تندرست کر لے، تو وہ اسی کا ہو گا جس نے اسے (کھلا پلا کر) صحت مند بنایا۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3525]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15601، 18863) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
السند مرسل وانظر الحديث السابق (3524)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 125

   سنن أبي داودمن ترك دابة بمهلك فأحياها رجل فهي لمن أحياها

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3525 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3525  
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
یہ الگ باب باندھ کر اس مسئلے کو صرف امام ابودائود نے نمایاں کیا ہے۔
اس کے تحت مذکورہ احادیث بھی امام ابودائود ہی کی سند سے دوسرے محدثین تک پہنچی ہیں۔
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اگرکوئی جانور بالکل موت کے منہ میں پہنچ چکاہو۔
اس کی زندگی کی امید ختم ہوچکی ہو۔
اور مالک نے اس سے ہاتھ اٹھا لیا ہو۔
تو جو کوئی اسے علاج اور خدمت کے ذریعے سے تندرست کرلے وہ اسی کا ہوجائےگا۔
بنیادی اصول یہ ہواکہ کسی جاندار کی زندگی ختم ہوتی دیکھائی دے اور پہلے مالک نے اسے چھوڑ دیا ہو۔
تو جواس کو موت سے بچا کر اس کی زندگی کا تسلسل قائم کرلے گا۔
وہ آئندہ کےلئے اسی کو استعمال کرے گا۔
اعضاء کی پیوند کاری کا مسئلہ اپنے اعضاء کے بارے میں لوگ وصیت کرجاتے ہیں۔
کہ موت کے بعد دوسرے ضرورت مندوں کو دے دیے جایئں اس پر بحث وتمحیص جاری ہے۔
اکثر علماء اس جواز کے قائل ہیں۔
لیکن جواز کا یہ فتویٰ ضرورت اور مصلحت انسانی کی بنیاد پردیا جاتا ہے۔
(جدید فقہی مسائل مولانا خالد یوسف رحمانی۔
210تا 2149)
اس کے جواز کے لئے باقاعدہ قیاس صحیح کی کوئی صورت تو اب تک سامنے نہیں آئی۔
صرف یہی کہا جاتا ہے کہ آنکھیں اور گردے وغیرہ انسان کے مرنے کے بعد یقینی طور پر ختم ہوکر مٹی میں مل جانے ہوتے ہیں۔
ان کو اگر اس طرح محفوظ کرلیا جائے۔
کہ ان سے دوسرے انسان فائدہ اٹھالیں تواچھی بات رہی ہے۔
جو اہل علم اس کے جواز کے مخالف ہیں، ان کی طرف سے یہ نکات اٹھائے جاتے ہیں۔


مرنے والا کس طرح اپنا عضو دوسرے کے حوالے کرنے کی وصیت کرسکتا ہے۔
جب کہ وہ خود اس عضو کا مالک نہیں ہوتا۔
انسان اپنی جان کی بھی مالک نہیں، اس لئے وہ ا پنی جان نہیں لے سکتا۔
انسان اپنی صوابدید پر اپنے اعضاء کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اس سلسلے میں صحیح مسلم کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے۔
کہ حضرت طفیل بن عمرودوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی رسول اللہ ﷺ کو پیش کش کی تھی۔
کہ مکہ سے ہجرت کر کے بنودوس کو محفوظ قلعے میں تشریف لے آیئں لیکن یہ سعادت اللہ نے انصارکےلئے مقدر فرمائی تھی۔
اس لئے آپ ﷺنے پیش کش قبول نہ کی۔
اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے۔
آپ ﷺ کی ہجرت کے بعد حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنی قوم کے ایک ساتھی کے ہمراہ ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔
یہ ساتھی شدید بیماری میں مبتلاہوگئے۔
اور تکلیف نہ برداشت کرسکے تواپنا نیز اٹھا کراپنے دونوں ہاتھوں کی رگیں کاٹ لیں دونوں ہاتھوں سے خون ابل پڑا اور اسی حالت میں ان کی موت واقع ہوگئی۔
حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں خواب میں اچھی حالت میں دیکھا، البتہ انھوں نے اپنے ہاتھ ڈھانپ رکھے تھے، حضرت طفیل عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کیا سلو ک کیا انہوں نے جواب دیا۔
اپنے نبی ﷺکی طرف میری ہجرت کی وجہ سے مجھے بخش دیا۔
حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر پوچھا کہ مجھے نظرآرہا ہے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ ڈھانپ ر کھے ہیں۔
انہوں نے جواب دیا کہ مجھ سے کہہ دیا گیا کہ جو تو نے خود بگاڑا ہے اسے ہم ٹھیک نہیں کریں گے، حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے گوش گزارکیا۔
تو آپﷺ نے د عا فرمائی۔
اے میرے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے۔
(صحیح مسلم،کتاب الإیمان، باب الدلیل علی أن قاتل نفسه لا یکفر، حدیث: 116) بظاہر یہ کافی وقیع اعتراض ہے۔
لیکن جہاں تک ملکیت کا تعلق ہے۔
یہ ثابت شدہ ہے کہ کسی انسان کا کوئی عضو ضائع کردی جائے۔
تو اسی عضو کی دیت اسی انسان کو دی جاتی ہے۔
خون بہا بھی، اس کے اپنے چھوڑے ہوئے ترکے کاحصہ سمجھا جاتا ہے۔
اس لئے اپنے اعضاء کی ملکیت بھی اس طرح انسان کو ملی ہوتی ہے۔
جس طرح اللہ کی دی ہوئی دوسری نعمتوں کی ملکیت اسے تفویض کردی گئی ہوتی ہے۔
حضرت طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھی صحابی کا یہ عمل نہ تھا کہ انہوں نے موت کے منہ میں جاتے ہوئے اپنے کسی عضو کو بچا لیا ہو۔
بلکہ اس کے بالکل برعکس تھا کہ زندہ ہاتھوں کی رگیں کاٹ کر ہاتھوں کو اور خود کو موت کے سپرد کر دیا۔
اس لئے ان کاعمل غلط تھا۔
کسی شخص کا وہ عمل جو اس کے برعکس ہے۔
یعنی موت آجانے کے بعد اپنے اعضاء کوبچا کر ان کی زندگی برقرار رکھنے کی اجازت دے۔
تو امید ہے کہ اس کا یہ عمل ناپسندیدہ نہیں بلکہ پسندیدہ ٹھرے گا۔


اعضاء کی وصیت کو ناجائز قرار دینے والوں کا دوسرا نکتہ اس حدیث کے حوالے سے ہے کہ كسرُ عظمِ الميتِ ككسرِ عظمِ الحيِّ في الاثمِ (سنن ابن ماجة: حدیث: 1617) مردے کی ہڈی توڑنا گناہ میں زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔
اس پر تمام اعضاء کو قیاس کیا جائے گا۔
اور جس طرح زندہ کا عضو نکالنا گناہ ہے۔
اسی طرح مردے کا عضو نکالنا بھی گناہ ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مردہ انسان کی ہڈی توڑنے یا مردے کی آنکھ ناک۔
کان۔
کاٹ کر لاش کا مسخ کرتا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جتنازندہ کے ساتھ ایسا سلوک کرنا گنا ہ ہے۔
یہ ایک مجرمانہ عمل ہے۔
اس میں (زندہ یا مردہ حالت میں) دوسرے کی اہانت اور اپنے احساس کے مطابق اس کواذیت دینے کی مکروہ خواہش کارفرما ہے۔
جس پروہ یقینا سخت عذاب کا مستحق ہے۔
اس کے برعکس اگرزندگی میں کسی کا کوئی عضو مردہ ہو جائے۔
جس طرح گنگرین (ماس خورہ وغیرہ کی بیماری) لگنے سے ہاتھ پائوں مردہ ہوجاتے ہیں۔
تو مردہ اور زندہ کو الگ کر کے مردہ حصے کو دفن کرنا اور جسم کے باقی حصے کو بچانا ضروری ہے۔
کیونکہ اس عمل کا مقصود اہانت یا اذیت کے برعکس زندہ حصے کی حفاظت ہے۔
تو ایسا قطع عضومطلوبہ ہوگا۔
اور اس کوشش پر اجر وثوا ب ملے گا۔
مرنے والے کے ایسے اعضاء کو الگ کرلینا جن کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔
اسی پسندیدہ اور ثواب کے عمل سے مشابہ ہے۔
یہ اہانت کے مقصد سے عضو کاٹنے والے کے عمل سے مشابہ نہیں، بلکہ اس سے یکسر مختلف عمل ہے۔


قصاص میں مجرم کاعضو کاٹ دینا عین تقاضائے اسلام ہے۔
کیونکہ یہ ایذا اہانت کےلئے نہیں، بلکہ جس طرح اللہ کا فرمان ہے۔
(وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌوَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ) قصاص (بدلہ لینے) میں تمہارے لئے زندگی ہے۔
یہ عمل مجموعی حیثیت سے حفاظت حیات کےلئے ہے۔
اسی لئے مطلوب ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ محض عضو کا کاٹنا جرم نہیں، بلکہ غلط مقصد کےلئے کاٹنا جرم اور اچھے مقصد کے لئے کاٹنا پسندیدہ ہے۔
انسان کے جسم کو کٹ لگانا جرم ہے۔
لیکن جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! (الشفاء في ثلاث......وشرطة محجم.........الخ) (صحیح البخاري، کتاب الطب، باب الشفاء في ثلاث، حدیث: 5680) شفاء تین چیزوں میں ہے۔
(جراح کے نشتر میں۔
۔
۔
۔
۔
۔
)
اگر علاج کےلئے جسم کو کاٹا جائے تو یہ جرم نہیں اچھاعمل ہوگا۔
حفاظت حیات۔
شفاء وغیرہ کے اعلیٰ مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے مرنے والے کی وصیت کے مطابق مرنے کے بعد مردہ جسم سے اعضاء کو نکال کر انہیں زندہ رکھنے کے عمل کو جرم کے طور پر عضو نکالنے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
بلکہ اس عمل یعنی مردہ حصے کو الگ کرکے بچ سکنے والے اعضاء کو بچانے پر قیاس کیا جائے گا۔
اعضاء کی پیوندکاری کی ایک صورت یہ ہے۔
کہ زندہ انسان اپنا ایک گردہ دوسرے کو دے دیتا ہے۔
اور ایک گردے کے ساتھ نارمل زندگی گزارتا ہے۔
اگر فیصلہ نیت کو سامنے رکھ کرکیا جائے۔
تو یہ خود اذیتی یا خود کو نقصان پہنچانے والا عمل نہیں۔
بلکہ اعلیٰ ترین ایثار سے کام لے کر ایک انسان کی زندگی بچانے کا انتہائی قابل احترام عمل ہے۔
اور اللہ کے فرمان (وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا) جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اس نے گویا ساری انسانیت کی زندگی بچائی کی رو سے ان شاء اللہ قابل تحسین ہی ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3525