اس سند سے بھی بواسطہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ اشتمال صماء یہ ہے کہ ایک کپڑا سارے بدن پر لپیٹ لے، اور کپڑے کے دونوں کنارے اپنے بائیں کندھے پر ڈال لے، اور اس کا داہنا پہلو کھلا رہے، اور منابذہ یہ ہے کہ بائع یہ کہے کہ جب میں یہ کپڑا تیری طرف پھینک دوں تو بیع لازم ہو جائے گی، اور ملامسہ یہ ہے کہ ہاتھ سے چھو لے نہ اسے کھولے اور نہ الٹ پلٹ کر دیکھے تو جب اس نے چھو لیا تو بیع لازم ہو گئی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3378]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3378
فوائد ومسائل: 1۔ (اشتمال الصماء) کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انسان سرسے پائوں تک ایک ہی کپڑے میں لپٹ جائے۔ اور کوئی ہاتھ پائوں اس سے باہر نہ ہو۔ اس میں کسی بھی جلدی میں نقصان ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے گرجائے اور سنبھل نہ سکے۔ یا کسی کیڑے مکوڑوں وغیرہ سے اپنا دفاع نہ کرسکے وغیرہ۔
2۔ بیع منابذہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جانبین اپنی اپنی چیز ایک دوسرے کیطرف پھینک کر تبادلہ کرلیں اور انہیں دیکھنے بھالنے سوچنے کاحق نہ ہو۔
3۔ بیع ملامسہ میں ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ چیز کو محض ہاتھ لگانے ہی پر بیع کو پختہ سمجھ لیا جائے۔ یا اندھیرے میں سودا ہو اور چھونے سے بیع لازم ہوجائے او ر انسان چیز کو دیکھ بھال نہ سکے۔ الغرض اسلام نے ان امور سے منع فرما دیا ہے جن میں دھوکا اور فریب کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3378