عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی ہے کہ میں آپ کے سر پر دف بجاؤں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(بجا کر) اپنی نذر پوری کر لو“ اس نے کہا: میں نے ایسی ایسی جگہ قربانی کرنے کی نذر (بھی) مانی ہے جہاں جاہلیت کے زمانہ کے لوگ ذبح کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا کسی صنم (بت) کے لیے؟“ اس نے کہا: نہیں، پوچھا: ”کسی وثن (بت) کے لیے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کر لو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3312]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3312
فوائد ومسائل: 1۔ آلات موسیقی میں سے صرف دف ہی ایسی چیز ہے جسے اسلام نے خوشی کے موقع پر بجانے کی اجازت ہے۔ اور رسول اللہ ﷺکی جہاد سے خیر وسلامتی کے ساتھ تشریف آوری سب خوشیوں سے بڑھ کرخوشی تھی۔ مگر آپﷺ کی حیات مبارکہ میں دورجدید کی بدعی رسم جشن میلاد کو اس سے ملانا بہت بڑا جرم ہوگا۔
2۔ اگر کسی خیر کے کام میں مشرکین ومبتدعین کے ساتھ کوئی مشابہت و موافقت ہورہی ہو۔ جس میں ان کے اعمال کفر وشرک اور بدعت کی تایئد نہ ہو۔ تو اس عمل خیر پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے کہ درج زیل حدیث میں بھی آرہا ہے۔
3۔ وثن اور صنم میں ایک فرق یہ ہے کہ صنم ایسے بت کوکہتے ہیں کہ جو مورتی ہو۔ یعنی انسائی جثے سے مشابہ ہو اور وثن بت کو بھی کہتے ہیں۔ اور بتوں جیسے مشرکانہ اڈوں کو بھی جیسے درسگاہ آستانے اور مقابر وغیرہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3312