ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ کہتا ہے:) نذر ابن آدم کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لا سکتی جسے میں نے اس کے لیے مقدر نہ کیا ہو لیکن نذر اسے اس تقدیر سے ملاتی ہے جسے میں نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، یہ بخیل سے وہ چیز نکال لیتی ہے جسے وہ اس نذر سے پہلے نہیں نکالتا ہے (یعنی اپنی بخالت کے سبب صدقہ خیرات نہیں کرتا ہے مگر نذر کی وجہ سے کر ڈالتا ہے)۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3288]
النذر لا يأتي ابن آدم بشيء إلا ما قدر له ولكن يغلبه القدر ما قدر له فيستخرج به من البخيل فيتسر عليه ما لم يكن فيتسر عليه من قبل ذلك قال الله أنفق أنفق عليك
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3288
فوائد ومسائل: نذر ماننا اس معنی میں منع ہے۔ جیسے کہ جہلا ء سمجھتے ہیں۔ کہ اس سے فوری طور پرکوئی فائدہ ہوگا۔ یا کسی نقصان سے بچائو ہوجائے گا۔ ورنہ مطلقا ً اللہ کا قرب حاصل کرنےکےلئے کسی عبادت کو اپنے اوپر لازم کرلینا مشروع ہے۔ اور پھر اس کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔ اور اسی کو نذر کہا جاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3288
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 39
´نذر تقدیر کو نہیں ٹالتی، البتہ نذر ماننے سے بخیل کا مال نکالا جاتا ہے` اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) نذر ابن آدم کو ایسی چیز نہیں دیتی جو میں نے اس کے مقدر میں نہ لکھی ہو، بلکہ نذر اسے اس چیز سے ہمکنار کرتی ہے جو میں نے اس کے مقدر میں لکھ دی ہے۔ میں اس کے ذریعے بخیل سے مال نکلواتا ہوں اور نذر کے باعث وہ مجھے اس قدر دیتا ہے، جتنا وہ مجھے نذر سے قبل نہیں دے سکتا تھا۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 39]
شرح الحديث: یہ حدیث قدسی ہے اگرچہ بظاہر "قال الله تعالیٰ" کے الفاظ اس میں مذکور نہیں ہیں، کیونکہ "مُقَدِّرٌ، اَلْمُسْتَخْرِجُ اور اَلْمُؤْتَى وغيره" ان الفاظ کی مستحق ذات صرف ذات باری تعالیٰ ہے۔ اس حدیث قدسی کا مطلب بڑا صاف اور واضح ہے کہ نذر کو کسی کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے یا نہ پہنچانے، اسی طرح تقدیر کو بدلنے میں کوئی دخل نہیں، لہذا ابن آدم کو چاہیے کہ وہ بجائے "نذر" پر ایمان رکھنے کے، الله تبارک و تعالیٰ کی ذات پر ایمان رکھے، اس کے علاوہ کسی کام کا ہونا یا نہ ہونا الله کی مشیت پر چھوڑ دے۔ البتہ اس حدیث سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ بخیل آدمى اپنے مال سے تب ہی خرچ کرتا ہے جب اس کی مَنَّت پوری ہو جائے، مَنَّت پوری ہوئے بغیر (ایک روپیہ بھی) خرچ کرنا گوارہ نہیں کرتا۔ چنانچہ الله تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب محمد صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے لوگوں کو مطلع کرا دیا کہ "منت ماننا" نہ تو ابن آدم کے لیے سود مند بن سکتا ہے اور نہ اسے کسی مشکل و تکلیف سے چھٹکارہ دلا سکتا ہے۔ اور (اسی طرح یہ بات بھی واضح رہے کہ) "منت ماننا" الله تعالیٰ کی لکھی تقدیر کو تبدیل بھی نہیں کر سکتا، بہرحال اگر کسی نے جائز کام کی منت مان بھی لی ہے تو اسے چاہیے کہ (پوری صداقت سے) اس منت کو پورا کرے، پھر وہ لیت و لعل سے کام نہ لے۔ اس پر امتِ مسلمہ کا اجماع ہے اور یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایجاب منت کے بعد تکاسل و تغافل سے قطعی گریز کرنا چاہیے۔
نذر کے باعث کنجوس آدمی الله کی رضا کی خاطر تھوڑا سا صدقہ کرتا ہے، جو عام حالات میں نہیں کرتا: اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ تنگ دل آدمی منت ماننے کی وجہ سے اپنا مال ضرور خرچ کرتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ مانی ہوئی منت کا پورا کرنا بہت ضروری ہے، البتہ غیر شرعی کام کی تکمیل پر منت پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔
ابن آدم بذریعہ نذر کوئی ایسی چیز حاصل نہیں کر سکتا، جو الله نے اس کے مقدر میں نہیں لکھی: اہل علم کا کہنا ہے کہ منت کو بہرحال پورا کرنا چاہیے، چاہے وہ معلق ہو یا غیر معلق۔ نذر معلق: کوئی شخص نذر مانے کہ الله تعالیٰ نے مجھے شفایاب کر دیا تو میں ایک روزہ رکھوں گا یا مال صدقہ کروں گا۔ نذر مطلق: کوئی شخص یہ نذر مانے کہ میں رضاالٰہی کی خاطر یہ کام کروں گا۔ اور نذر کو کسی کام کے ساتھ مقید نہ کرے۔ ان ہر دو نذروں کا پورا کرنا ضروری ہے کیونکہ نذر عبادت ہے، اور اس کے کرنے کا حکم الله تعالیٰ نے دیا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا: «وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ»[الحج: 29] "اور وہ (حج کرنے والے) اپنی نذریں پوری کریں۔ " الله تعالیٰ نے اپنے نیکوکار بندوں کی علامات بیان کرتے ہوئے ان کے اس وصف کو نمایاں طور پر بیان کیا کہ وہ جو نذر و نیاز مانتے ہیں، اس کو پورا کرتے ہیں: «يُوفُوْنَ بَالنَّذْرِ»[الدهر: 7] "وہ (مومنین) نذر پوری کرتے ہیں۔ " سیدنا عبدالله ابن عمر سے مروی ہے، عمر رضی الله عنہما نے عرض کیا، اے الله کے رسول! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا؟ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کرو۔ [صحيح بخاري، كتاب الايمان والنذور، رقم: 6697] حتیٰ کہ جو مر گیا ہو اور اس پر کوئی نذر باقی رہ گئی ہو تو اس کا ولی وہ نذر پوری کرے، سیدنا ابن عمر رضی الله عنہما نے ایک عورت سے، جس کی ماں نے قباء میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تھی کہا کہ اس کی طرف سے تم پڑھ لو۔ سیدنا ابن عباس رضی الله عنہما نے بھی یہی کہا تھا۔ [صحيح بخاري، كتاب الايمان والنذور، باب من مات وعليه النذر، معلقا] ابن عباس رضی الله عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخص رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آيا اور عرض کیا کہ میری بہن نے نذر مانی تھی کہ حج کریں گی لیکن اب ان کا انتقال ہو چکا ہے؟ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ اس نے عرض کی ضرور ادا کرتا۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر الله کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کا قرض پورا ادا کیا جائے۔ [صحيح بخاري، كتاب الايمان والنذور، رقم: 6699]
وہ نذریں جن کا پورا نہ کرنا ضروری ہے: کچھ ایسی نذریں ہوتی ہیں کہ ان کا پورا کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ جیسا کہ سیدنا انس رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو اپنے دو بیٹوں کا سہارا لیے چل رہا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا ان صاحب کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے کعبہ کو پیدل چلنے کی منت مانی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ اللَّهَ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ لَغَنِيٌّ، وَأَمَرَهُ أَنْ يَرْكَب»[صحيح بخاري، كتاب العمرة، رقم: 1865] "الله تعالیٰ اس سے بےنیاز ہے کہ یہ اپنے کو تکلیف میں ڈالیں پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں سوار ہونے کا حکم دیا۔ " ایسے ہی نذر معصیت کا نہ پورا کرنا ضروری ہے۔ چناچہ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ، فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ، فَلَا يَعْصِهِ".»[صحيح بخاري، كتاب الايمان والنذور، رقم: 6696، 6700] ”جس نے اس کی نذر مانی ہو کہ الله کی اطاعت کرے گا تو اسے اطاعت کرنی چاہئے لیکن جس نے الله کی معصیت کی نذر مانی ہو اسے نہ کرنی چاہئے۔“
نذر ماننے کی ممانعت کی وجہ کیا ہے؟ منت ماننے کے متعلق جو نہی وارد ہوئی ہے، اس کی علت یہ ہے کہ وہ تقدیر کو بدلنے کی غرض سے نہ ہو، کیونکہ ممنوع منت میں یہ قصد و ارادہ داخل ہوتا ہے کہ اس سے خصول غرض یا دفع ضرر تو ضرور مل جائے گا۔ اس بنیاد پر مکروہ ہے نہ کہ اس سے مطلق نذر ماننا منع ہے۔ کیونکہ اگر مطلق نذر منع ہوتی، تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے فرمان میں آیا ہے کہ اسے پورا کرو، یہ قطعاً نہ ہوتا۔ حالانکہ ایفائے منت پر امت مسلمہ کا اجماع ہے، بشرطیکہ وہ ارتقاب معصیت کی طرف لے جانے والی نہ ہو، اس پر مستزاد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: «إِنَّمَا اُسْتَخْرِجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيْلِ .» اس فرمان میں بھی ایفائے منت کی طرف اشارہ ہے۔ اس لیے کہ جو صاحب بخیل نہیں ہوتا، وہ بغیر منت مانے الله کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہے، اس کے برعکس کنجوس آدمی صرف اسی صورت میں راہ الہی میں خرچ کرتا ہے۔ جب اس پر منت واجب ہو۔ دیکھئے! صحیح مسلم ط، دار التحریر: 77/5 . اور الله کی راہ میں خرچ کرنے پر حدیث کے آخری الفاظ جو بعض دوسری روایات میں مذکور ہیں، دلیل ہیں کہ الله تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: «وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: أَنْفِقْ أُنِقُ عَلَيْكَ» "تو (میرے لیے) خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ " [سنن ابن ماجه: 686/1، كتاب الكفارات، باب النهي عن النذر، رقم: 2123] - البانی رحمة الله علیہ نے اسے "صحیح" کہا ہے۔ بہرحال یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس حدیث سے مراد لوگوں کو (راہ الہی میں) بغیر کسی علت و تعلیل کے خرچ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ [مفصل بحث كے ليے ملاحظه هو۔ فتح الباري: 577/11]
نذر لغیر الله کی ممانعت: مولانا رضا الحسن قادری لکھتے ہیں: نذر عرفی: وہ نذر جس کا پورا کرنا مستحب (پسندیدہ) ہو۔ اس کے پورا کرنے پر ثواب ہو اور نہ کرنے پر گناہ نہ ہو۔ مثلاً کوئی شخص کہے کہ اگر میرا یہ کام ہوگیا تو میں ختم گیارہویں شریف دلواؤں گا، کسی نبی، ولی کے دربار شریف پر لنگر تقسیم کروں گا۔ یاد رہے! مزارات پر اگر کوئی چیز بانٹی جائے تو اس سے صرف اور صرف تقرب الہی مقصود ہو نہ کہ صاحب مزار کی قربت، نیز لنگر وہیں تقسیم کیا جائے جہاں غرباء، و فقراء کو فائدہ ہو۔ نذر اور منت کے مسائل کے تفصیل بہار شریعت (9/ 17 تا 21) ملاحظہ فرمائیں۔ قارئین کرام! مولانا کی یہ بات جہالت اور شرک سے لبریز ہے۔ مثل مشہور ہے: «اَلْاِنَاءُ يَتَرَشَّحُ مَا فِيْهِ» کسی دربار پر نذر تقرب الہی کی خاطر اور وہاں لنگر تقسیم کرنا ممنوع ہے کیونکہ اس میں شرک کا شائبہ ہے۔ ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ (ایک جگہ کا نام ہے) میں اونٹ ذبح کرے گا تو وہ شخص نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت وہاں تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟“ لوگوں نے کہا: نہیں، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کفار کی عیدوں میں سے کوئی عید وہاں منائی جاتی تھی؟“ لوگوں نے کہا: نہیں، تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کر لو البتہ گناہ کی نذر پوری کرنا جائز نہیں اور نہ اس چیز میں نذر ہے جس کا آدمی مالک نہیں“۔ [سنن ابو داود، كتاب الايمان والنذور، رقم: 23131 - سنن ابن ماجه، رقم: 2131 - المشكاة، رقم: 3437] - البانی رحمه الله نے اسے "صحیح" کہا ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث رحمه الله فتاویٰ عزیزی (ص: 516) پر رقمطراز ہیں: ”اور غرائب ابى عبيد اور بستان الفقيه اور كنز العباد میں ہے کہ جائز نہیں ہے ذبح کرنا گائے اور بکری کو قبروں کے نزدیک، اس واسطے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ "عقر" یعنی قبروں کے نزدیک ذبح کرنا اسلام میں نہیں، ایسا ہی سنن ابو داؤد میں ہے۔“
منع پر اجماع امت: علامہ حصفکی حنفی رقم طراز ہیں: «واعلم أن النذر الذى يقع للاموات من اكثر العوام وما يوخذ من الدارهم والشمع والزيت ونحوها الى ضرائح الاوليائ الكرام تقربا اليهم فهوا بالاجماع باطل و حرام»[الدر المختار: 155/1] "جان لو! کہ اکثر لوگ وہ بزرگوں کے نام پر جو نذریں، نیازیں دیتے ہیں، اور جو روپے پیسے، تیل اور چراغ وغیرہ بطور نذر کے مزارات اولیاء پر تقرب کی غرض سے لائے جاتے ہیں، یہ سب کچھ بالاجماع باطل اور حرام ہے۔ " علامہ احمد الرومی الحنفی رحمه الله فرماتے ہیں: «ولا يجوز ان ينذر للقبور الشمع ولا الزيت ولا غير ذلك فانه نذر معصية لا يجوز الوفاء به بل يلزم الكفارة مثل كفارة اليمين .»[مجالس الابرار، ص: 20 , مطبوعه الرياض] "قبروں کے لیے شمع، تیل وغیرہ نذر ماننا جائز نہیں۔ اس لیے کہ یہ معصیت و نافرمان کی نذر ہے جو پوری کرنا جائز نہیں بلکہ اس پر قسم کے کفارے جیسا کفارہ لازم آئے گا۔ "
علامہ صنع الله الحنفی فرماتے ہیں: ذبح اور نذر لغیرالله باطل ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں ہے: «قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ»[الانعام: 162] "آپ کہہ دیجئے یقیناً میری نذر، میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا (اس) الله رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ " لہذا نذر لغیرالله اس طرح شرک ہے، جیسا کہ غیرالله کے نام پر ذبح کرنا شرک ہے۔ [مغني المريد: 1137/3] مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں: "غیرالله کی نذر و منت حرام ہے اور منذور وغیرہ خواہ وہ شرینی ہو یا رخونی، ہر امیر و فقیر پر اس کا کھانا حرام ہے۔ " (فتاوی عبدالحی لکھنوی) شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: "اور اگر منذور غیر خدا جانور ہو تو عندالذبح اس پر خدا کا نام لینا کچھ مفید نہیں پڑتا، اور وہ مردار اور خنزیر کی طرح حرام ہی رہتا ہے۔ " [تفسير عزيزي: 691/1] غور فرمائیں کہ حنفی علماء بھی اس نذر کی حرمت کے قائل ہیں۔ مشرکین مکہ اپنے مویشی اور کھیتی باڑی میں غیرالله کی نیاز اور حصہ مقرر کرتے تھے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: «وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِّمَّا رَزَقْنَاهُمْ ۗ تَاللَّـهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَفْتَرُونَ»[النحل: 56] "اور جسے جانتے بوجھتے بھی نہیں اس کا حصہ ہماری دی ہوئی روزی میں سے مقرر کرتے ہیں، والله تمہارے اس بہتان کا سوال تم سے ضرور ہی کیا جائے گا." مشرکین اپنے بتوں کے نام پر نذر و نیاز دیتے تھے کہ یہ بت انہیں الله کے قریب کر دیں گے، اور الله کے حضور ان کی سفارش کر دیں گے۔ چناچہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ مشرکین کہتے تھے: «مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ»[الزمر: 3] "ہم ان کی عبادت محض اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں الله کے قریب کر دیں۔ " پس معلوم ہوا کہ ایسی نذر، نذر معصیت ہی ہے، اسے پورا کرکے الله کی نافرمانی نہ کی جائے۔ الله تعالیٰ ہمیں شرک و بدعات سے بچنے کی توفیق دے۔ "
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 39
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3835
´نذر کسی (مقدر) چیز کو آگے اور پیچھے نہیں کرتی ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) نذر ابن آدم کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لا سکتی جسے میں نے اس کے لیے مقدر نہ کیا ہو، البتہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے بخیل سے (کچھ مال) نکال لیا جاتا ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3835]
اردو حاشہ: (1) عام لوگوں کا ذہن یہ ہے کہ نذر ماننے سے شاید تقدیر یا مصیبت ٹل جاتی ہے‘ حالانکہ نذر سے کچھ بھی نہیں ہوتا‘ نہ یہ شرعاً مستسحن ہے۔ اس کی بجائے صدقہ مصیبت کو رد کرتا ہے اور دعا بھی تقدیر کو ٹال سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ دعا کی برکت سے اپنا کوئی فیصلہ بدل سکتے ہیں۔ اسے کوئی روک سکتا ہے‘ نہ مجبور کرسکتا ہے اور نہ کوئی اس سے پوچھ ہی سکتا ہے۔ {لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْئَلُوْنَ}(الانبیاء:21:23) وہ سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔ لہٰذا ندر کی بجائے‘ صدقے‘ نیکی اور دعا کی طرف رغبت کرنی چاہیے۔ (2) یہ حدیث‘ احادیث قدسیہ میں شمار کی گئی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3835
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2123
´نذر سے ممانعت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر سے آدمی کو کچھ نہیں ملتا مگر وہ جو اس کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے، لیکن آدمی کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ نذر پر غالب آ جاتا ہے، تو اس نذر سے بخیل کا مال نکالا جاتا ہے، اور اس پہ وہ بات آسان کر دی جاتی ہے، جو پہلے آسان نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تو مال خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2123]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سخی آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہے۔ اسے نذر ماننے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
(2) مشروط نذر ماننا بخیلوں کا کام ہے۔ نذر ماننے والا کہتا ہے: اگر میرا فلاں کام ہو گیا یا فلاں مصیبت ٹل گئی تو اتنی رقم صدقہ کروں گا، گویا وہ کہہ رہا ہے کہ اگر میرا کام نہ ہوا تو یہ صدقہ نہیں کروں گا۔ اس لحاظ سے نذر مکروہ ہے۔
(3) غیر مشروط نذر یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ سے وعدہ کرے کہ فلاں نیکی کا کام کروں گا۔ یہ ثواب کا کام ہے۔
(4) نذر ایک عبادت ہے اس لیے نذر خواہ مخواہ مشروط ہو یا غیر مشروط صرف اللہ ہی کے لیے ماننی چاہیے۔ کسی ولی، مزار یا بت وغیرہ کے لیے نذر ماننا اس کی عبادت ہے جو شرک ہے۔
(5) اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنے سے مال میں برکت ہوتی ہے اور مشکلات دور ہوتی ہیں۔
(6) ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے لیکن دعا، نذر اور دیگر عبادتوں کے ذریعے سے ہم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اسی سے امید وابستہ کرتے ہیں کہ اپنی رحمت سے ہماری حاجتیں پوری کرے اور مشکلات دور فرمائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2123
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1538
´نذر کی کراہت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر مت مانو، اس لیے کہ نذر تقدیر کے سامنے کچھ کام نہیں آتی، صرف بخیل اور کنجوس کا مال اس طریقہ سے نکال لیا جاتا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1538]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: نذر سے منع کرنا دراصل بہتر کی طرف رہنمائی کرنا مقصود ہے، صدقہ وخیرات کو مقصود کے حصول سے معلق کرنا کسی بھی صاحب عظمت ومروت کے شایان شان نہیں، یہ عمل اس بخیل کا ہے جو کبھی خرچ نہیں کرتا اور کرنے پر بہترچیز کی خواہش رکھتا ہے اور ایسا وہی شخص کرتاہے جس کا دل صدقہ و خیرات کرنا نہیں چاہتا صرف کسی تنگی کے پیش نظر اصلاح حال کے لیے صدقہ وخیرات کی نذر مانتا ہے، نذر سے منع کرنے کی یہی وجہ ہے (واللہ اعلم)۔
2؎: اور اگر معصیت کی نذر ہو تو اس کا پورا کرنا صحیح نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1538
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1144
1144- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے نذر ابن آدم کے لیے کوئی ایسی چیز نہیں لے کر آتی ہے، جو میں نے اس کی تقدیر میں نہ لکھی ہو لیکن یہ ایک بات ایسی چیز ہے، جس کے ذریعے کنجوس کا مال میں نکلوا لیتا ہوں اور میں اس ادا ئیگی پر بندے کو وہ دیتا ہوں جو کنجوسی کرنے پر نہیں دیتا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1144]
فائدہ: اس حدیث میں نذر کی اصل حقیقت بیان کی گئی ہے کہ نذر ماننے سے تقدیر میں تبدیلی نہیں ہوتی، اور نہ ہی نذر کی کوئی خاص اہمیت ہے، بس نذر کی وجہ سے مال کہیں صرف ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ یادر ہے کہ شریعت اسلامیہ نے نذر کے متعلق مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی، ان شاء اللہ۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1143
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4241
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منت نہ مانا کرو، کیونکہ نذر، تقدیر سے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی، اس کے ذریعہ تو بس بخیل سے مال نکلوایا جاتا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4241]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نذر ماننے والا اس کو تقدیر کے ٹالنے کا ذریعہ تصور کرتا ہے، اس لیے صدقہ و خیرات کی منت مانتا ہے، اس غلط نظریہ کی نذر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4241
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4243
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر آدم کے بیٹے کے قریب کسی ایسی چیز کو نہیں کر سکتی، جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقدر نہ کی ہو، لیکن نذر تقدیر کے موافق ہی ہوتی ہے، تو اس طرح بخیل سے وہ کچھ نکلوایا جاتا ہے، جسے وہ نکالنا نہیں چاہتا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4243]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اللہ تعالیٰ کنجوس سے، اپنی تقدیر کے موافق منت منواتا ہے، اور وہ سمجھتا ہے، یہ کچھ نذر کے سبب حاصل ہوا، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا ہے، تمام معاملات اللہ کی تقدیر کے مطابق سر انجام پاتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4243
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6609
6609. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”(اللہ تعالٰی فرماتا ہے:) ںذر، بندے کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لاتی جو میں نے اس کے لیے مقدر نہ کی ہو بلکہ تقدیر اسے وہ چیز دیتی ہے جو میں نے اس کے لیے مقرر کر دی ہے البتہ میں اس کے ذریعے سے بخیل سے مال نکلوا لیتا ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6609]
حدیث حاشیہ: (1) انسانی بخل کی حد ہے کہ وہ اپنے خالق کی بارگاہ میں بھی اس وقت تک اپنا مال خرچ کرنا پسند نہیں کرتا جب تک اس سے اپنا معاوضہ وصول نہ کرے اور وہ بھی ہمیشگی، یعنی وہ بھی نذرونیاز ادا کرنے کا عزم اس وقت کرتا ہے جب اس کا مریض پہلے شفایاب ہو جائے، جبکہ حدیث کہتی ہے کہ کارکنانِ قضا و قدر کے سامنے یہ مشروط نذرونیاز بے کار اور لاحاصل بات ہے وہ ایک طے شدہ معاملہ ہے جو ہو کر رہے گا۔ اس طرح کی مشروط نذریں تقدیر کے فیصلوں پر ذرا بھر بھی اثر انداز نہیں ہوتیں، صدقہ کرنے سے بےشک بلائیں ٹل جاتی ہیں، اس لیے اگر تم یہ چاہتے ہو تو شرط کیے بغیر صدقہ دیتے رہو۔ اگر عالم تقدیر میں یہ طے پا چکا ہے کہ تم صدقہ کرو گے تو یہ بلا تم سے ٹل جائے گی تو تمہارا مقصد بھی پورا ہو جائے گا اور تمہارے اس بخل کا مظاہرہ بھی نہیں ہو گا۔ (2) بہرحال امور مقدرہ کے لیے اسباب بھی مقدر ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ بھی حدیث میں ہے کہ بعض اسباب ایسے ہیں جن کا ارتکاب بے فائدہ ہے، عالم تقدیر پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اس لیے ایسے اسباب کو بروئے کار لانا وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ حماقت بھی ہے جیسا کہ عورت کسی مرد سے شادی کرنے کے لیے یہ شرط لگائے کہ پہلی بیوی کو طلاق دے دو، اسی طرح صدقہ و خیرات کرنے کے لیے یہ شرط لگانا کہ اگر میرا یہ کام ہو گا تو اتنا روپیہ اللہ تعالیٰ کے لیے دوں گا، اس قسم کے اسباب اسی میں داخل ہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6609
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6694
6694. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”نذر ابن آدم کو کوئی ایسی چیز نہیں دیتی جو اس کے مقدر میں نہ ہو لیکن وہ اسے (انسان کو) اس کام کی طرف لے جاتی ہے جو اس کے مقدر میں لکھ دیا ہوتا ہے چنانچہ نذر کے ذریعے اللہ تعالٰی بخیل سے مال نکالتا ہے اس طرح وہ چیزیں صدقہ کر دیتا ہے جس کی اس سے پہلے اس سے امید نہیں کی جا سکتی تھی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6694]
حدیث حاشیہ: (1) لوگوں کی عادت ہے کہ وہ کسی فائدے کے حصول یا کسی نقصان کے دور ہونے کی نذر مانتے ہیں۔ اس قسم کی نذر سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ایسا کرنا بخیلوں کا کام ہے، وہ بھی صدقہ خیرات نہیں کرتے لیکن جب کسی خوف یا حرص کے باعث کوئی نذر مانتے ہیں تو مال خرچ کرتے ہیں۔ اگر خوف یا طمع نہ ہو تو ایک کوڑی خرچ کرنے کے روادار نہیں ہیں جبکہ سخی آدمی ایسا نہیں کرتا۔ سخی آدمی تو سخاوت کے ساتھ کسی طمع یا خوف کو وابستہ ہی نہیں کرتا۔ (2) واضح رہے کہ نذر، دعا کی طرح ہے۔ دونوں اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو رد نہیں کرتیں لیکن تقدیر کا حصہ ضرور ہیں، اس کے باوجود دعا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور نذر سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا سبب اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ دعا عبادت عاجلہ ہے، انسان اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کے حضور عجز و انکسار پیش کرتا ہے جبکہ نذر میں عبادت کسی مفاد سے وابستہ کی جاتی ہے اور کسی ضرورت کے پورا ہونے کے بعد عبادت کو سر انجام دیا جاتا ہے۔ بہرحال نذر طاعت کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور مفادات کی نذر کو بنظر استحسان نہیں دیکھا گیا اور نہ اس کو اچھا ہی سمجھا گیا ہے اگرچہ اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6694