الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ
کتاب: قسم کھانے اور نذر کے احکام و مسائل
15. باب الْيَمِينِ فِي قَطِيعَةِ الرَّحِمِ
15. باب: رشتہ داروں سے بے تعلقی کی قسم کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3274
حَدَّثَنَا الْمُنْذِرُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا نَذْرَ وَلَا يَمِينَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ، وَلَا فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِي قَطِيعَةِ رَحِمٍ، وَمَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَلْيَدَعْهَا وَلْيَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، فَإِنَّ تَرْكَهَا كَفَّارَتُهَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْأَحَادِيثُ كُلُّهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ إِلَّا فِيمَا لَا يُعْبَأُ بِهِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قُلْتُ لِأَحْمَدَ: رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: تَرَكَهُ بَعْدَ ذَلِكَ، وَكَانَ أَهْلًا لِذَلِكَ، قَالَ أَحْمَدُ: أَحَادِيثُهُ مَنَاكِيرُ، وَأَبُوهُ لَا يُعْرَفُ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر اور قسم اس چیز میں نہیں جو ابن آدم کے اختیار میں نہ ہو، اور نہ اللہ کی نافرمانی میں، اور نہ ناتا توڑنے میں، جو قسم کھائے اور پھر اسے بھلائی اس کے خلاف میں نظر آئے تو اس قسم کو چھوڑ دے (پوری نہ کرے) اور اس کو اختیار کرے جس میں بھلائی ہو کیونکہ اس قسم کا چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ تمام حدیثیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ۱؎ اور چاہیئے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ دیں مگر جو قسمیں بے سوچے کھائی جاتی ہیں اور ان کا خیال نہیں کیا جاتا تو ان کا کفارہ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد سے پوچھا: کیا یحییٰ بن سعید نے یحییٰ بن عبیداللہ سے روایت کی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں پہلے کی تھی، پھر ترک کر دیا، اور وہ اسی کے لائق تھے کہ ان سے روایت چھوڑ دی جائے، احمد کہتے ہیں: ان کی حدیثیں منکر ہیں اور ان کے والد غیر معروف ہیں ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3274]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن النسائی/ الأیمان 16 (3823)، (تحفة الأشراف: 8754)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/212) (حسن)» ‏‏‏‏ (اس روایت کا یہ جملہ  «فإن تركها كفارتها»  منکر ہے کیوں کہ یہ دیگر تمام صحیح روایات کے برخلاف ہے، صحیح روایات کا مستفاد ہے کہ کفارہ دینا ہو گا)

وضاحت: ۱؎: یعنی مرفوع ہیں۔
۲؎: ابوداود کا یہ کلام کسی اور حدیث کی سند کی بابت ہے، نُسَّاخ کی غلطی سے یہاں درج ہو گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن إلا قوله ومن حلف فهو منكر

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
رواه النسائي (3823 وسنده حسن) وانظر الحديث السابق (3273)

   سنن النسائى الصغرىلا نذر ولا يمين فيما لا تملك لا في معصية لا قطيعة رحم
   سنن النسائى الصغرىليس على رجل بيع فيما لا يملك
   جامع الترمذيلا نذر لابن آدم فيما لا يملك لا عتق له فيما لا يملك لا طلاق له فيما لا يملك
   سنن أبي داودلا نذر ولا يمين فيما لا يملك ابن آدم في معصية الله في قطيعة رحم من حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها فليدعها وليأت الذي هو خير فإن تركها كفارتها
   سنن أبي داودلا طلاق إلا فيما تملك لا عتق إلا فيما تملك لا بيع إلا فيما تملك لا وفاء نذر إلا فيما تملك
   سنن أبي داودلا نذر إلا فيما يبتغى به وجه الله لا يمين في قطيعة رحم
   سنن ابن ماجهلا طلاق فيما لا تملك
   بلوغ المرام لا نذر لابن آدم فيما لا يملك ولا عتق له فيما لا يملك ولا طلاق له فيما لا يملك

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3274 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3274  
فوائد ومسائل:
اس روایت میں (من خلف علی یمین)سے آخر تک کا حصہ ضعیف ہے۔
(علامہ البانی)اور جس کام پرقسم کھائی ہے۔
اسے ترک کرے تو کفارہ دینا راحج ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3274   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 926  
´طلاق کا بیان`
سیدنا عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نذر کی کوئی حیثیت نہیں جس کا انسان مالک نہیں اور نہ ایسے غلام کا آزاد کرنا کوئی حیثیت رکھتا ہے جس کا انسان مالک ہی نہیں اور نہ طلاق واقع ہو گی جو اس کے دینے والے کے اختیار میں نہ ہو۔ اسے ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے۔ اس سلسلہ میں جو کچھ وارد ہے، یہ اس میں صحیح ترین ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 926»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الطلاق، باب في الطلاق قبل النكاح، حديث:2190، والترمذي، الطلاق واللعان، حديث:1181.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان جس چیز کا مالک ہی نہیں اس میں مالکانہ اختیارات استعمال کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ان اختیارات کا استعمال ناقابل تسلیم ہے۔
2. یہ حدیث دلیل ہے کہ اجنبی عورت پر طلاق واقع نہیں ہوتی‘ مثلاً: ایک آدمی کسی دوسرے کی منکوحہ یا کسی غیر منکوحہ خاتون سے کہتا ہے کہ تو مطلقہ ہے اور وہی شخص بعد ازاں کسی وقت اسی عورت سے نکاح کرلیتاہے تو علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ عورت مطلقہ تصور نہیں ہوگی، لیکن کسی عورت کو اس طرح کہے کہ اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھے طلاق، تواس صورت میں علماء و فقہاء کے تین اقول ہیں: ٭ امام شافعی‘ امام احمد‘ داود ظاہری رحمہم اللہ اور چند دیگر علماء کی رائے یہ ہے کہ ایسی عورت مطلقہ نہیں ہوگی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے بائیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ قول نقل کیا ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہی حدیث ہے۔
٭ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ایسی عورت مطلقہ ہو جائے گی۔
٭ تیسرا قول امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے کہ اگر کسی خاص قبیلے یا شہر کی عورت سے کہے یا کسی دن یا مہینے کے ساتھ مخصوص کرے تو اس صورت میں طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر عمومی طور پر کہے تو واقع نہیں ہوگی۔
غلام کو آزاد کرنے اور نذر ماننے کا حکم بھی اسی طرح ہے۔
ان اقوال میں سے اقرب الی الصواب پہلا قول ہی ہے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 926   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3823  
´قسم کھانے کے بعد استثنا کرنے یعنی ان شاءاللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس چیز میں کوئی نذر، اور کوئی قسم نہیں ہوتی، جس کے تم مالک نہیں ہو اور نہ ہی معصیت اور قطع رحمی میں قسم ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3823]
اردو حاشہ:
(1) ان چیزوں میں نذر اور قسم نہیں ماننی چاہیے‘ منع ہے۔ اور اگر کوئی ان چیزوں کے بارے میں قسم کھا لے یا کوئی نذر مان لے تو وہ پوری نہیں کرنی چاہیے کیونکہ نذر یا قسم کے ساتھ ممنوع کام جائز نہیں ہوسکتا‘ البتہ ایسی قسم کے کفارے کے بارے میں اختلاف ہے۔ راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ کفارہ ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہ سزا ہے اس بات کی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا معظم ومقدس نام ایسی چیز میں کیوں استعمال کیا جو شرعاً ممنوع ہے۔ گویا اس نے اللہ تعالیٰ کے نام کی توہین ہے‘ لہٰذا ان چیزوں میں نذر اور قسم کے معتبر نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ندر اور قسم کے باوجود وہ کام جائز نہیں ہوگا بلکہ ایسی نذر یا قسم کو توڑنا واجب ہے۔ اور اس غلطی کا وہ کفارہ ادا کرے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ ایسی نذر یا قسم منعقد ہی نہیں ہوتی‘ لہٰذا کفارے کی ضرورت نہیں مگر یہ بات کمزور معلوم ہوتی ہے۔
(2) مباح چیزوں میں نذر ماننا جائز ہے‘ اللہ تعالیٰ کی معصیت میں نذر ماننا جائز نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3823   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4616  
´بیچنے والے کے پاس غیر موجود چیز کے بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس چیز کا بیچنا آدمی کے لیے جائز نہیں جس کا وہ مالک نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4616]
اردو حاشہ:
کسی کی چیز کوئی اور شخص نہیں بیچ سکتا۔ اگر بیچے تو ایسی بیع نہیں ہو گی، چیز اصل مالک کی رہے گی، لہٰذا خریدار کو چاہیے کہ خریدنے سے پہلے یقین حاصل کرلے کہ بیچنے والا شخص واقعتا مالک ہے، ورنہ خریدار کی رقم ضائع ہو سکتی ہے کیونکہ وہ چیز تو اصل مالک ہی کو ملے گی۔ خریدار کو بیچنے والے سے رقم واپس مل گئی تو مل گئی ورنہ ضائع ہے کیونکہ اصل مالک سے رقم کا مطالبہ نہیں کیا جا سکے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4616   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1181  
´نکاح سے پہلے طلاق واقع نہ ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم کے لیے ایسی چیز میں نذر نہیں جس کا وہ اختیار نہ رکھتا ہو، اور نہ اسے ایسے شخص کو آزاد کرنے کا اختیار ہے جس کا وہ مالک نہ ہو، اور نہ اسے ایسی عورت کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے جس کا وہ مالک نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1181]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بعض نسخوں میں منصوبہ سین سے ہے یعنی منسوبہ،
اور یہی صحیح ہے اس سے مراد وہ عورت ہے جو کسی قبیلے یا شہر کی طرف منسوب ہو یا منصوبہ سے مراد متعین عورت ہے۔
مثلاً کوئی خاص عورت جس سے ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی ہے یہ کہے کہ اگر میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو اس کو طلاق تو نکاح کے بعد اس پر طلاق پڑجائے گی،
حالاں کہ فی الوقت یہ طلاق اس کی ملکیت میں نہیں ہے۔

2؎:
مثلاً یوں کہے إن نَكَحتُ اليَومَ أَو غَداً(اگرمیں نے آج نکاح کیا یا کل نکاح کروں گا)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1181