عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر میں پڑاؤ کیا، جو لوگ آپ کے اصحاب میں سے آپ کے ساتھ تھے وہ بھی تھے، خیبر کا رئیس سرکش و شریر شخص تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: محمد! کیا تمہارے لیے روا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کر ڈالو، ہمارے پھل کھاؤ، اور ہماری عورتوں کو مارو پیٹو؟ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے، اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”عبدالرحمٰن! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اعلان کر دو کہ جنت سوائے مومن کے کسی کے لیے حلال نہیں ہے، اور سب لوگ نماز کے لیے جمع ہو جاؤ“، تو سب لوگ اکٹھا ہو گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی پھر کھڑے ہو کر فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھ کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے اس قرآن میں جو کچھ حرام کیا اس کے سوا اور کچھ حرام نہیں ہے؟ خبردار! سن لو میں نے تمہیں کچھ باتوں کی نصیحت کی ہے، کچھ باتوں کا حکم دیا ہے اور کچھ باتوں سے روکا ہے، وہ باتیں بھی ویسی ہی (اہم اور ضروری) ہیں جیسی وہ باتیں جن کا ذکر قرآن میں ہے یا ان سے بھی زیادہ ۱؎، اللہ نے تمہیں بغیر اجازت اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے، اور نہ ہی ان کی عورتوں کو مارنے و ستانے کی، اور نہ ہی ان کے پھل کھانے کی، جب تک کہ وہ تمہیں وہ چیزیں دیتے رہیں جو تمہارا ان پر ہے (یعنی جزیہ)“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 3050]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9886) (ضعیف)» (اس کے راوی اشعث لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی حدیث پر بھی قرآن کی طرح عمل واجب اور ضروری ہے، یہ نہ سمجھو کہ جو قرآن میں نہیں ہے اس پر عمل کرنا ضروری نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات کا حکم دیا ہے، وہ اصل میں اللہ ہی کا حکم ہے، اسی طرح جن باتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے ان سے اللہ تعالی نے روکا ہے، ارشاد باری ہے: «وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا»(سورۃ الحشر: ۷)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أشعث بن شعبة ضعيف ضعفه الجمهور ولم يثبت توثيقه عن أبي داود رحمه اللّٰه وقال أبو زرعة الرازي : لين (الجرح و التعديل 273/2) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 112
الجنة لا تحل إلا لمؤمن وأن اجتمعوا إلى الصلاة أيحسب أحدكم متكئا على أريكته قد يظن أن الله لم يحرم شيئا إلا ما في هذا القرآن ألا وإني والله قد وعظت وأمرت ونهيت عن أشياء إنها لمثل القرآن أو أكثر الله لم يحل لكم أن تدخلوا بيوت أهل الكتاب إلا بإذن ضرب نسائهم
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3050
فوائد ومسائل: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ ان روایات میں لفظ (عشور) غالباً مشابہت کی وجہ سے استعمال کیا گیا ہے۔ ورنہ مسلمانوں کی زرعی آمدنی پر بھی عشر لگتا ہے۔ ملحوظہ۔ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ مگر سنت کے حجت ہونے پر دال ہے۔ اور یہی مضمون دیگر صحیح احادیث سے مثلا ً دیکھئے۔ (سنن ابی دائود۔ فی لزوم السنۃ۔ حدیث۔ 4604، وما بعد) اور سب سے بڑھ کر خود قرآن مجید کی بھی یہی دعوت ہے۔ مثلا: (مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ)(النساء:80)(وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا)(الأحزاب:71)(وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّـهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ)(النور:52)(قُل أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ)(آل عمران:32)(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ)(محمد:33)(وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا)(النساء:115)(وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ)(الحشر:7)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3050
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 164
´انکار حدیث کرنے والے` «. . . وَعَن الْعِرْبَاض بن سَارِيَة قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أيحسب أحدكُم متكأ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ أَلَا وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ أَمَرْتُ وَوَعَظْتُ وَنَهَيْتُ عَنَ أَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَكْثَرُ وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يُحِلَّ لَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ وَلَا أَكْلَ ثِمَارِهِمْ إِذَا أَعْطَوْكُمُ الَّذِي عَلَيْهِمْ» رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَفِي إِسْنَادِهِ: أَشْعَثُ بْنُ شُعْبَة المصِّيصِي قد تكلم فِيهِ . . .» ”. . . سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے تخت یا چھپرکھٹ پر گاؤ تکیہ لگائے ہوئے یہ خیال کرے گا کہ اللہ نے جو کچھ حرام کیا ہے وہ صرف اسی قرآن مجید ہی میں موجود ہے ہوشیار اور آگاہ ہو جاؤ اللہ کی قسم یقیناً میں نے حکم یہی دیا ہے اور نصیحت یہی کی ہے اور بہت سی چیزوں سے میں نے منع بھی کیا ہے وہ قرآن مجید کے مثل ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بغیر اجازت کے اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے اور نہ تمہارے لیے ان کی عورتوں کو مارنا حلال کیا ہے اور نہ باغوں کے پھلوں کا تمہارے لیے کھانا جائز ہے جبکہ تمہارے حقوق ادا کرتے ہیں جو ان کے ذمہ ہیں۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 164]
تحقیق الحدیث اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس روایت کا راوی اشعث بن شعبہ قول راجح میں ضعیف ہے، اسے صرف ابن حبان نے ثقہ قرار دیا اور ابوزرعہ وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ امام ابوداود سے اس کی توثیق ثابت نہیں ہے، کیونکہ اس توثیق کا راوی مجہول الحال ہے۔ ◄ حافظ ذہبی نے اشعث بن شعبہ کے بارے میں کہا: «ليس بقوي»”وہ قوی نہیں ہے۔“[ديوان الضعفاء: 473] ◄ تحریر تقریب التہذیب [ج1 ص146 ت525] میں توثیق ابی داود اور توثیق ابن حبان کی وجہ سے اسے «صدوق حسن الحديث» قرار دیا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔ نیز دیکھئے: [كشف الإبهام لما تضمنه تحرير التقريب من الأوهام ص256]