کلیب کہتے ہیں کہ ہم مجاشع نامی بنی سلیم کے ایک صحابی رسول کے ساتھ تھے اس وقت بکریاں مہنگی ہو گئیں تو انہوں نے منادی کو حکم دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فر ماتے تھے: ”جذع (ایک سالہ) اس چیز سے کفایت کرتا ہے جس سے «ثنی»(وہ جانور جس کے سامنے کے دانت گر گئے ہوں) کفایت کرتا ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2799]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الضحایا 12(4389)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 7 (3140)، (تحفة الأشراف: 11211)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/368) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (1467) وله شاھد صحيح عند الحاكم (4/226 ح 7538)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2799
فوائد ومسائل: صحیح احادیث کے مطابق ایک سالہ بکری (جزع) کا جواز غالباً تین صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کےلئےثابت ہوا ہے۔ ایک حضرت ابو بردہ بن نیاررضی اللہ تعالیٰ عنہ جس کا بیان درج ذیل حدیث میں آرہا ہے۔ اور دوسرے مذکورہ بالا حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تیسرے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2799
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3140
´قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے؟` کلیب کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بنی سلیم کے مجاشع نامی ایک شخص کے ساتھ تھے، بکریوں کی قلت ہو گئی، تو انہوں نے ایک منادی کو حکم دیا، جس نے پکار کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”(قربانی کے لیے) بھیڑ کا ایک سالہ بچہ دانتی بکری کی جگہ پر کافی ہے۔“[سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3140]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ثنيه يا مسنه اس جانور کو کہتے ہیں کہ جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ کر دو نئے دانت آجائیں۔
(2) جذعه اس جانور کو کہتے ہیں جس کے دودھ کے دانت نہ ٹوٹے ہوں۔
(3) مذکورہ بالا حدیث اور ام بلال ؒسے مروی حدیث: بھیڑ کے جذعے کی قربانی کرو اس لیے کہ اس کی قربانی جائز ہے۔ (مسند احمد: 2/368) سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں بھی بھیڑ کا جذعه قربانی کیا جاسکتا ہے البتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت جوکہ صحیح مسلم (1963) میں ہے، کی رو سے مسنه (دودانتا) جانور قربانی کرنا افضل ہے۔ جیساکہ حافظ ابن حجر ؒ اس کی بابت فتح الباری میں لکھتے ہیں: امام نووی ؒ نے جمہور علماء سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اس حدیث کو افضلیت پر محمول کیا ہے۔ دیکھیے: (فتح الباري: 1/ 20) نیز راجح قول کے مطابق جذعه صرف بھیڑ میں جائز ہے یعنی دنبہ اور چھترا دیگر جانوروں کے اس عمر کے بچوں کی قربانی کرنا جائز نہیں۔ اس مسئلے کی تفصیل کے لیے اگلی حدیث کے فوائد میں بحث دیکھی جا سکتی ہے۔
(4) شیخ زہیت شاویش لکھتے ہیں: بھیڑ، بکری اور گائے میں مسنہ وہ ہوتا ہے جو تیسرے سال میں لگ جائےاور اونٹوں میں جو چھٹے سال میں لگ جائے۔ بھیڑ کے جذعے کے متعلق علمائے لغت اور اکثر علماءکا مشہور اور راجح قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ (بھیڑ کا بچہ) ہے جو پورے سال کا ہوجائے۔ امام شوکانی امام نووی حافظ ابن حجر ؒ اور دیگر علماء نے یہی فرمایا ہے۔ (حاشہ ضعیف سنن ابن ماجہ) لیکن یہ بات حتمی نہیں الگ الگ ملکوں کی الگ الگ آب وہوا کی وجہ سے اس میں فرق بھی ہوسکتا ہےاس لیے اصل اعتبار بکرے، گائے، بیل اور اونٹ میں دو دانتا ہونا ہے اور دنبہ چھترے کا ایک سالہ ہونا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3140