کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھتے (اس کے بعد ابن السرح نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہم تینوں ۱؎ سے بات کرنے سے منع فرما دیا، یہاں تک کہ مجھ پر جب ایک لمبا عرصہ گزر گیا تو میں اپنے چچا زاد بھائی ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ میں دیوار پھاند کر گیا، میں نے ان کو سلام کیا، اللہ کی قسم انہوں نے جواب تک نہیں دیا، پھر میں نے اپنے گھر کی چھت پر پچاسویں دن کی نماز فجر پڑھی تو ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو پکار رہا تھا: کعب بن مالک! خوش ہو جاؤ، پھر جب وہ شخص جس کی آواز میں نے سنی تھی میرے پاس آیا، تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو پہنا دیئے، اور میں مسجد نبوی کی طرف چل پڑا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف فرما تھے، مجھ کو دیکھ کر طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور دوڑ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2773]
وضاحت: ۱؎: ہم تینوں سے مراد کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم ہیں، یہ لوگ بغیر کسی عذر شرعی کے غزوہ تبوک میں نہیں گئے، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے واپس آئے تو ان لوگوں نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر صاف صاف کہہ دیا کہ اللہ کے رسول ہمارے پاس کوئی عذر نہیں تھا، محض سستی کی وجہ سے ہم لوگ اس غزوہ میں شریک نہیں ہوئے، اسی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم صادر فرمایا تھا کہ ان تینوں سے کوئی بات نہ کرے۔ ۲؎: یہ توبہ قبول ہونے کی مبارکبادی تھی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق مطولا بقصة غزوة تبوك
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4676) صحيح مسلم (2769)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2773
فوائد ومسائل: 1۔ یہ غزوہ تبوک میں حضرت کعب بن ماک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیر حاضری پر ان کے بائکاٹ سے متعلق واقعہ ہے۔ جو فتح مکہ کے بعد سن 9 ہجری میں پیش آیا تھا۔ اور یہی وہ غزوہ ہے۔ جو اس دور کے تمام مسلمانوں پر بالمعوم فرض عین ہوا تھا۔ مگر مخلص مسلمانوں میں سے تین افراد بغیر کسی معقول عذر کے پیچھے رہ گئے یعنی کعب بن مالک سربراہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے۔ تو انہوں نے بصراحت اقرار کیا۔ کہ ہمارے پیچھے رہ جانے میں کوئی شرعی عذر نہ تھا۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے مقاطعہ کرلیں۔ چالیس دن کے بعد حکم آیا کہ یہ اپنی عورتوں سے بھی الگ رہیں۔ پچاس دن پورے ہونے پر توبہ قبول کی گئی۔ او ر یہ آیت نازل ہوئی۔ (وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ)(التوبة۔ 118) اور اللہ نے ان تین آدمیوں کی توبہ قبول فرما لی۔ جن کا معاملہ موخر کیا گیا تھا۔ یہا ں تک کہ جب زمین باوجود اپنی کشادگی کے ان پر تنگ ہوگئی۔ اورخود ان کی جان بھی ان پر تنگ ہوگئی۔ اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ کے سوائے ان کےلئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ پھر اللہ نے ان پر رجوع فرمایا تاکہ وہ توبہ کرلیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا بہت مہربان ہے۔
2۔ جو شخص خوشخبری پہنچائے اسے ہدیہ دینا مستحب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2773
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1659
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سفر سے دن کو چاشت کے وقت ہی واپس لوٹتے تھے تو جب آپﷺ واپس آتے، مسجد سے آغاز فرماتے اس میں دو رکعت نماز ادا کرتے پھر وہیں تشریف رکھتے (تاکہ گھر والوں کو آپﷺ کی آمد کا علم ہو سکے)۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1659]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) ان احادیث سے معلوم ہوا سفر سے واپسی کے بعد اپنے گھر جانے سے پہلے اللہ کے گھر میں حاضر ہونا چاہیے تاکہ اپنے گھر والوں کی ملاقات سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور ہدیہ عبودیت پیش کیا جا سکے۔ (2) اگر کوئی انسان لوگوں کی عقیدت و محبت کا مرکز ہو اور لوگ اس کی ملاقات وزیارت کے مشتاق ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ سفر سے واپسی پر تَحِیَّةُ الْمَسْجِد ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے مسجد میں بیٹھ جائے تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ اس سے ملاقات کی سعادت حاصل کر سکیں۔ (3) اس لئے گھر واپسی ایسے وقت میں ہونی چاہیے جو ان کے علم میں ہو اور ان کے لیے دقت و کلفت کا باعث نہ ہو اس لیے آپﷺ سفر سے واپسی میں آخری منزل عموماً مدینہ طیبہ کے قریب ہی کرتے تھے جس کی وجہ سے مدینہ طیبہ میں یہ اطلاع ہو جاتی تھی کہ آپﷺ کل صبح تشریف لانے والے ہیں پھر آپﷺ اس منزل سے صبح جلد روانہ ہو کر چاشت کے وقت مدینہ منورہ پہنچ جاتے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لاتے تاکہ گھر والوں کو آمد کا علم ہو جائے۔