سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب جنگ خیبر ہوئی تو میرے بھائی بڑی شدت سے لڑے، ان کی تلوار اچٹ کر ان کو لگ گئی جس نے ان کا خاتمہ کر دیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے سلسلے میں باتیں کی اور ان کی شہادت کے بارے میں انہیں شک ہوا تو کہا کہ ایک آدمی جو اپنے ہتھیار سے مر گیا ہو (وہ کیسے شہید ہو سکتا ہے؟)، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اللہ کے راستہ میں کوشش کرتے ہوئے مجاہد ہو کر مرا ہے“۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: پھر میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے اسی کے مثل بیان کیا، مگر اتنا کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں نے جھوٹ کہا، وہ جہاد کرتے ہوئے مجاہد ہو کر مرا ہے، اسے دوہرا اجر ملے گا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2538]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3152
´جہاد کرتے ہوئے خود اپنی ہی تلوار سے ہلاک ہو جانے کا بیان۔` سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کی جنگ میں میرا بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بہت بہادری سے لڑا، اتفاق ایسا ہوا کہ اس کی تلوار پلٹ کر خود اسی کو لگ گئی، اور اسے ہلاک کر دیا۔ تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب چہ میگوئیاں کرنے لگے اور شک میں پڑ گئے کہ وہ اپنے ہتھیار سے مرا ہے ۱؎ سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے لوٹ کر آئے تو میں نے عرض کیا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3152]
اردو حاشہ: جس شخص کی نیت کافروں سے جہاد کرنے کی ہو اور وہ دوران جہاد میں مارا جائے‘ خواہ دوشمن کے ہاتھوں یا اپنے ساتھیوں کی غلطی سے اپنے ہاتھوں‘ وہ شہید ہی متصور ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نیت کو دیکھتا ہے نہ کہ ظاہری اعمال کو۔ حضرت سلمہb کے بھائی اگرچہ اپنے ہتھیار ہی سے مارے گئے مگر ان کی نیت خود کشی کی نہیں تھی‘ لہٰذا ان کے لیے دہرا اجر ہے۔ جہاد کا بھی اور شہادت کا بھی۔ رَضِیَ اللّٰـہٰ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3152
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4669
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب خیبر کا دن تھا، تو میرے بھائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر بڑی شدید جنگ لڑی اور اس کی تلوار پلٹ کر اسے لگی اور اسے قتل کر ڈالا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے اس سلسلہ میں نکتہ چینی کی اور اس کی شہادت میں شک کیا، یہ آدمی اپنے ہی اسلحہ سے فوت ہوا ہے اور اس کے بعض معاملہ میں (شہادت میں) شک کیا، حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4669]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) عامر بن اکوع، ایک لحاظ سے حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کے چچا ہیں، تو دوسرے لحاظ سے ان کے اخیافی بھائی ہیں، کہ جاہلیت کے رواج کے مطابق، اکوع نے عامر کی والدہ کو جو ان کے باپ کی بیوی ہے، لیکن اس کی ماں نہیں ہے، اپنے گھر ڈال لیا تھا، تکملہ ج (3) ص (225) ۔ (2) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، اگر نشانہ خطا ہو کر اپنے آپ کو لگ جائے اور انسان اس سے فوت ہوجائے، تو وہ خود کشی شمار نہیں ہوگا، یہ اشعاری ہی آپ نے عامر سے سنے تھے، اب سلمہ رضی اللہ عنہ پڑھے، اس لیے آپ نے پوچھا، یہ رجزیہ کلام کس کا ہے۔