عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یہ آیت کریمہ «يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم»”اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کر دئیے گئے تھے“(سورۃ البقرہ: ۱۸۳) نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عشاء پڑھتے ہی لوگوں پر کھانا، پینا اور عورتوں سے جماع کرنا حرام ہو جاتا، اور وہ آئندہ رات تک روزے سے رہتے، ایک شخص نے اپنے نفس سے خیانت کی، اس نے اپنی بیوی سے صحبت کر لی حالانکہ وہ عشاء پڑھ چکا تھا، اور اس نے روزہ نہیں توڑا تو اللہ تعالیٰ نے باقی لوگوں کو آسانی اور رخصت دینی اور انہیں فائدہ پہنچانا چاہا تو فرمایا: «علم الله أنكم كنتم تختانون أنفسكم»”اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے“(سورۃ البقرہ: ۱۸۷) یہی وہ چیز تھی جس کا فائدہ اللہ نے لوگوں کو دیا اور جس کی انہیں رخصت اور آسانی دی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2313]
صلوا العتمة حرم عليهم الطعام والشراب والنساء صاموا إلى القابلة اختان رجل نفسه فجامع امرأته وقد صلى العشاء ولم يفطر علم الله أنكم كنتم تختانون أنفسكم الآية نفع الله به الناس ورخص لهم ويسر
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2313
فوائد ومسائل: اس حدیث کی رو سے پہلے یہ مسئلہ تھا کہ عشاء کی نماز کے بعد کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت کرنا ممنوع تھا، لیکن ایک صحابی سے عشاء کی نماز پڑھ لینے کے بعد یہ کوتاہی ہو گئی کہ وہ بیوی کے ساتھ ہم بستری کر بیٹھا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رخصت عنایت فرما دی۔ (مزید تفصیل اگلی حدیث کے فوائد میں دیکھیں۔ )
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2313