معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: مرد کے لیے اس کی حائضہ بیوی کی کیا چیز حلال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لنگی (تہبند) کے اوپر کا حصہ جائز ہے، لیکن اس سے بھی بچنا افضل ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث قوی نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 213]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «أخرجه: الطبراني فى الكبير: 20/ 100، ح: 194 من طريق آخر عن عبدالرحمٰن ابن عائذ به وهو لم يدرك معاذ بن جبل كما فى جامع التحصيل للعلائي، ص: 223، تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 11332) (ضعیف)» سعدالأغطش لین الحدیث اور بقیہ مدلس ہیں۔
وضاحت: عورت جب مخصوص ایام میں ہو تو (جماع کے بغیر) مباشرت جائز ہے جیسا کہ حدیث ۲۱۲ میں ذکر ہوا۔ مذکورہ حدیث ضعیف ہے، جیسا کہ حدیث میں بیان بھی ہوا کہ امام ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث قوی نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد الرحمٰن بن عائذ لم يدرك معاذ بن جبل رضي اللّٰه عنه،قاله أبو حاتم الرازي (المراسيل ص 125 رقم: 448) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 21
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 213
فوائد و مسائل: ➊ ایام مخصوصہ میں جوان میاں بیوی کو ازحد احتیاط چاہئیے، عین ممکن ہےکہ ایسی حد تک پہنچ جائیں کہ واپس آنا مشکل ہو جائے۔ تاہم (جماع کے بغیر) مباشرت جائز ہے، کیونکہ مذکورہ حدیث ضعیف ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 213
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 127
´دوران حیض مباشرت` «. . . وعن معاذ بن جبل رضي الله تعالى عنه انه سال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: ما يحل للرجل من امراته وهي حائض؟ فقال: ما فوق الإزار . . .» ”. . . سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ”جب عورت ایام ماہواری میں ہو تو عورت کی اپنے شوہر کے لیے کیا کیا چیز حلال ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پاجامہ یا تہبند میں جسم کا جتنا حصہ ہے اسے چھوڑ کر باقی حصہ اس کے لیے حلال ہے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 127]
� لغوی تشریح: «مَا فَوْقَ الْإِزَار» اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں: ایک تو ازار سے مراد جماع اور باہم ہم بستری ہیں، یعنی شوہر کے لیے جماع کے علاوہ باقی سب کچھ کر گزرنا جائز ہے۔ اور دوسرے معنی ہیں: پاجامہ و تہبند کی جگہ، یعنی ناف سے گھٹنے تک کا حصہ چھوڑ کر باقی حصہ جسم سے مباشرت حلال ہے۔ اور دوسرے معنی کی رو سے یہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث «اِصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا النِّكَاح» کے معارض ہے کیونکہ سیدنا انس کی حدیث سے صرف جماع کی ممانعت ہے جبکہ اس میں ناف سے گھٹنے تک کے سارے حصے سے استمتاع کی ممانعت ہے۔ مگر اولاً تو یہ روایت ضعیف ہے، ثانیاً اس سے پہلے معنی صرف جماع اور وطی مراد لیے جائیں گے تاکہ دونوں حدیثوں میں مطابقت ہو جائے۔ سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے ساتھ حالت حیض میں لیٹ جاتے جبکہ اس نے نصف ران تک ازار باندھا ہوتا۔ [سنن النسائي، الطهارة، باب مباشرة الحائض، حديث: 288] اس حدیث اور مذکورہ دونوں احادیث پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ دوران حیض مباشرت کے لیے ناف سے گھٹنوں تک ازاربند کا ہونا شرط نہیں ہے، گھٹنوں سے اوپر والے حصے سے بھی استمتاع جائز ہے۔ ازار سے مقصود جماع اور خون سے تحفظ ہے، خواہ وہ گھٹنوں تک ہو یا نصف ران تک یا اس سے بھی کم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 127