سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کر دیا ہے، پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا) تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! اگر آپ کو حاجت نہیں تو اس سے میرا نکاح کرا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اسے مہر میں ادا کرنے کے لیے کچھ ہے؟“ وہ بولا: میرے اس تہبند کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اپنا ازار اسے (مہر میں) دے دو گے تو تمہارے پاس تو ازار بھی نہیں رہے گا، لہٰذا کوئی اور چیز تلاش کرو“، وہ بولا: اور تو کچھ بھی نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تلاش کرو چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو“، تو اس نے تلاش کیا لیکن اسے کچھ نہ ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تجھے کچھ قرآن یاد ہے؟“ کہنے لگا: ہاں فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، ان کا نام لے کر اس نے بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”جو کچھ تجھے قرآن یاد ہے اسی کے (یاد کرانے کے) بدلے میں نے اس کے ساتھ تیرا نکاح کر دیا ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 2111]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہر میں مال کی کوئی تحدید نہیں، خواہ قلیل ہو یا کثیر اس طرح محنت مزدوری یا تعلیم قرآن پر بھی نکاح درست ہے، جمہور علما کی یہی رائے ہے، اور بعض نے دس درہم کی تحدید کی ہے، ان کے نزدیک اس سے کم میں مہر درست نہیں، لیکن ان کے دلائل اس قابل نہیں کہ ان صحیح احادیث کا معارضہ کر سکیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2310) صحيح مسلم (1425)