سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے مذی سے بڑی تکلیف ہوتی تھی، باربار غسل کرتا تھا، لہٰذا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس میں صرف وضو کافی ہے“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کپڑے میں جو لگ جائے اس کا کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک چلو پانی لے کر کپڑے پر جہاں تم سمجھو کہ مذی لگ گئی ہے چھڑک لو۔“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 210]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «أخرجه:سنن ترمذي/كتاب الطهارة/ باب ما جاء فى المذي يصيب الثوب/ ح: 115، سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/ باب: الوضوء من المذي/ ح: 506 من حديث محمد بن إسحاق بن يسار به، وقال الترمذي: ”حسن صحيح“، وصححه ابن حبان ح: 240، (تحفة الأشراف: 4664)، وقد أخرجه: مسند احمد (3/485)، سنن الدارمي/الطهارة 49 (750) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (311)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 115
´کپڑے میں مذی لگ جانے کا بیان۔` سہل بن حنیف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے مذی کی وجہ سے پریشانی اور تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا تھا، میں اس کی وجہ سے کثرت سے غسل کیا کرتا تھا، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کیا اور اس سلسلے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”اس کے لیے تمہیں وضو کافی ہے“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر وہ کپڑے میں لگ جائے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: تو ایک چلو پانی لے اور اسے کپڑے پر جہاں جہاں دیکھے کہ وہ لگی ہے چھڑک لے یہ تمہارے لیے کافی ہو گا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 115]
اردو حاشہ: 1؎: اور یہی راجح ہے کیونکہ حدیث میں ((نَضْحُ))”چھڑکنا“ ہی آیاہے، ہاں بطور نظافت کوئی دھولے تو یہ اس کی اپنی پسندہے، واجب نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 115