الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
7. باب يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ
7. باب: دودھ پلانے سے وہ سارے رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔
حدیث نمبر: 2055
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دودھ پلانے سے وہ سارے رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو پیدائش سے حرام ہوتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 2055]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الرضاع 2 (1147)، سنن النسائی/النکاح 49 (3302)، (تحفة الأشراف: 16344)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الشہادات 7 (2646)، فرض الخمس 4 (3105)، تفسیر سورة السجدة 9 (4792)، النکاح 22 (5103)، 117 (5239)، الأدب 93 (6156)، صحیح مسلم/الرضاع 2 (1444)، سنن ابن ماجہ/النکاح 34 (1937)، موطا امام مالک/الرضاع 3 (15)، مسند احمد (6/44، 51، 66، 72، 102)، سنن الدارمی/النکاح 48 (2295) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح البخاريالرضاعة تحرم ما يحرم من الولادة
   صحيح البخارييحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة
   صحيح البخاريالرضاعة تحرم ما تحرم الولادة
   صحيح البخاريالرضاعة تحرم ما تحرم الولادة
   صحيح مسلميحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب
   صحيح مسلمالرضاعة تحرم ما تحرم الولادة
   صحيح مسلميحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة
   جامع الترمذيحرم من الرضاعة ما حرم من الولادة
   سنن أبي داوديحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة
   سنن النسائى الصغرىما حرمته الولادة حرمه الرضاع
   سنن النسائى الصغرىيحرم من الرضاع ما يحرم من الولادة
   سنن النسائى الصغرىيحرم من الرضاع ما يحرم من النسب
   سنن النسائى الصغرىيحرم من الرضاع ما يحرم من النسب
   سنن النسائى الصغرىالرضاعة تحرم ما يحرم من الولادة
   سنن ابن ماجهيحرم من الرضاع ما يحرم من النسب
   موطا امام مالك رواية ابن القاسمنعم إن الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسميحرم من الرضاع ما يحرم من الولادة

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2055 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2055  
فوائد ومسائل:
نکاح میں محرمات کی دو قسمیں ہیں۔
ابدی محرمات اور وقتی محرمات ابدی محرمات بسبب نسب کے سات ہیں۔

مایئں (اوپر تک)
بیٹیاں (نیچے تک) تین حیققی بہنیں (ماں باپ دونوں کی طرف سے یا صرف باپ کی طرف سے یا ماں کی طرف سے)
بھانجیاں۔
5بھتیجیاں۔

پھوپھیاں 7۔
خالایئں۔
بدلیل (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ الخ) (النساء 23) اور ان کے مماثل وہ رشتے جو رضاعت سے قائم ہوتے ہیں۔
سب حرام ہیں۔
جیسے کہ اس باب کی حدیث میں آیا ہے۔
تعلق مصاہرت (سسرال اور ازدواجی تعلق) کی بناء پر حرام ہونے والی خواتین یہ ہیں۔

بیویوں کی مایئں۔

بیویوں کی بیٹیاں بشرط یہ کہ بیوی سے دخول ہوا ہو۔

باپ دادا کی بیویاں 4۔
بیٹوں کی بیویاں (نیچے تک) اور یہی رشتے اگر رضاعت سے قائم ہوں تو حرام ہیں۔
ایک محدود وقت تک کے لئے حرام رشتے یہ ہیں۔
بیوی کی بہن اس کی پھوپھی یا بھتیجی یا خالہ اور خالہ یا بھانجی اور آزاد آدمی کےلئے چار بیویاں موجود ہوں۔
تو پانچویں حرام ہے۔
(کچھ علماء کے نزدیک) زانیہ تا آنکہ توبہ کرلے۔
اور وہ عورت جسے تین طلاقیں دی ہوں تاآنکہ کسی اور سے نکاح کرلے۔
اور وہاں سے فارغ ہو۔
محرمہ اپنے احرام سے حلال ہونے تک اور کوئی مطلقہ جو اپنے ایام عدت میں ہو۔
عدم ختم ہونے تک ان کے علاوہ دیگر عورتیں حلال ہیں۔
(وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ) (النساء۔
24)
(دیکھئے۔
تیسیر العلام شرح عمدۃ الاحکام)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2055   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2646  
´نسب اور رضاعت میں جو مشہور ہو پر گواہی`
«. . . أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَهَا، وَأَنَّهَا سَمِعَتْ صَوْتَ رَجُلٍ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِكَ؟ قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُرَاهُ فُلَانًا لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لَوْ كَانَ فُلَانٌ حَيًّا لِعَمِّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ دَخَلَ عَلَيَّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، " إِنَّ الرَّضَاعَةَ تُحَرِّمُ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ " . . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف فرما تھے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک صحابی کی آواز سنی جو ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں آنے کی اجازت چاہتا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے کہا، یا رسول اللہ! میرا خیال ہے یہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا ہیں۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! یہ صحابی آپ کے گھر میں (جس میں حفصہ رضی اللہ عنہا رہتی ہیں) آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا، میرا خیال ہے یہ فلاں صاحب، حفصہ کے رضاعی چچا ہیں۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے ایک رضاعی چچا کے متعلق پوچھا کہ اگر فلاں زندہ ہوتے تو کیا وہ بے حجاب میرے پاس آ سکتے تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! دودھ سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/بَابُ الشَّهَادَةِ عَلَى الأَنْسَابِ وَالرَّضَاعِ الْمُسْتَفِيضِ وَالْمَوْتِ الْقَدِيمِ:: 2646]
فوائد و مسائل:
سوال: زید کی دو بیویاں ہیں اور دونوں کے بطن سے اس کی بیٹیاں ہیں۔ بکر کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور اس نے اس کی کسی بیٹی کے ساتھ دودھ پیا۔ اب کیا بکر کا بیٹا اپنی رضائی بہن کے علاوہ اس کی دوسری بہنوں یا زید کی دوسری بیوی کی بیٹیوں سے نکا ح کر سکتا ہے؟
جواب: اس بچے کا نکا ح جس طرح اپنی رضاعی بہن کے ساتھ نہیں ہو سکتا، اسی طرح اس کی دیگر بہنوں اور زید کی دوسری بیوی کی بیٹیوں سے بھی نہیں ہو سکتا، کیونکہ جو رشتے خون کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں، وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔ زید کی بچی کے ساتھ اس نے دودھ پیا، وہ زید کا رضاعی بیٹا بن گیا۔ اب زید کی تمام بیٹیاں اس کی رضائی بہنیں ہیں۔
ہاں بکر کے دوسرے بیٹے جنہوں نے زید کی کسی بیوی کا دودھ نہیں پیا، وہ زید کی کسی بھی بیٹی کے ساتھ نکا ح کر سکتے ہیں، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
«إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عندها، وأنها سمعت صوت رجل يستأذن فى بيت حفصة، قالث عائشة: فقلت: يا رسول الله، هذا رجل يستأذن فى بيتك، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أراه فلانا، لعم حفصة من الرضاعة، فقالث عائشة: لو كان فلان حيا، لعمها من الرضاعة، دخل على؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، إن الرضاعة تحرم ما يخرم من الولادة»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف فرما تھے کہ انہوں نے ایک شخص کی آواز سنی، جو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ سیدہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ شخص آپ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تو یہ حفصہ کے رضائی چچا لگتے ہیں۔ سیدہ نے عرض کیا: اگر میرے رضائی چچا زندہ ہوتے، تو کیا وہ میرے گھر آ سکتے تھے؟ اس پر آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں! رضاعت سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں، جو خون سے حرام ہوتے ہیں۔ [صحيح البخاري: 2646، صحيح مسلم: 1445، واللفظ له]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 243   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 376  
´رضاعی رشتے حقیقی رشتوں کی طرح ہیں`
«. . . 310- وعن عمرة أن عائشة أم المؤمنين أخبرتها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عندها، وأنها سمعت صوت رجل يستأذن فى بيت حفصة، فقالت عائشة: فقلت: يا رسول الله، هذا رجل يستأذن فى بيتك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أراه فلانا، لعم لحفصة من الرضاعة، فقالت عائشة: يا رسول الله، لو كان فلان حيا، لعم لها من الرضاعة، دخل علي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم إن الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة . . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تھے کہ انہوں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے ایک آدمی کی آواز سنی جو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ آدمی (اندر آنے کی) اجازت مانگ رہا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ وہ فلاں آدمی ہے، حفصہ کا رضاعی چچا ہے۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یا رسول اللہ! اگر فلاں آدمی، جو کہ ان کا رضاعی چچا تھا، اگر زندہ ہوتا تو کیا میرے پاس (گھر میں) آ سکتا تھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جو رشتے (حقیقی) اولاد ہونے کی وجہ سے حرام ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 376]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2646، ومسلم 1444، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ جس طرح نسب سے رشتے حرام ہوتے ہیں اسی طرح رضاعت سے بھی رشتے حرام ہوجاتے ہیں مثلاً رضاعی بہن اُسی طرح حرام ہے جس طرح حقیقی بہن حرام ہے۔
➋ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: دو سال کے اندر بچہ جو دودھ پی لے تو حرمت ثابت ہوجاتی ہے اگرچہ ایک گھونٹ ہی ہو اور دو سال کے بعد اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 422/7 و سنده صحيح]
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رضاعت صرف بچپن میں ہی ہوتی ہے، بڑی عمر کی رضاعت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ [الموطأ 603/2 ح 1318 وسنده صحيح/مفهوم]
➍ سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: دو سال کے اند اگر ایک قطرہ (دودھ) بھی ہو تو حرام ہوجاتا ہے۔ الخ [الموطأ 604/2 ح 1322 وسنده صحيح]
➎ بچہ اگر منہ ڈال کر پانچ مرتبہ دودھ پی لے، چوس لے تو رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔
➏ غیر محرم سے پردہ ضروری ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 310   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 375  
´رضاعی رشتے حقیقی رشتوں کی طرح ہیں`
«. . . 469- وبه: أنها قالت: جاء عمي من الرضاعة فاستأذن على فأبيت أن آذن له حتى أسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم. قالت: فسألته عن ذلك فقال: إنه عمك فأذني له قالت: فقلت: يا رسول الله، إنما أرضعتني المرأة ولم يرضعني الرجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنه عمك فليلج عليك قالت عائشة: وذلك بعد أن ضرب علينا الحجاب، وقالت عائشة: يحرم من الرضاع ما يحرم من الولادة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ میرے رضاعی چچا آئے اور مجھ سے (گھر میں) آنے کی اجازت مانگی تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا تاکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لوں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارا چچا ہے، اسے اجازت دے دیا کرو۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے تو عورت نے دودھ پلایا تھا مرد نے تو دودھ نہیں پلایا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارا چچا ہے تمہارے پاس آ سکتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یہ بات ہم پر پردہ فرض ہونے کے بعد کی ہے۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 375]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5239، من حديث مالك به، ورواه مسلم 7/1445، من حديث هشام بن عروه به * من رواية يحييٰ بن يحييٰ، وجاء فى الأصل: أُرْسِلَ!!]

تفقه:
➊ حقیقی رشتوں کی طرح رضاعی رشتے بھی حرام ہوتے ہیں۔ ➋ غیرمحرم سے پردہ کرنا واجب ہے۔
➌ حدیث رسول کے مقابلے میں کسی کے عقلی اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
➍ ہر اختلاف میں کتاب و سنت کو ہی ترجیح حاصل ہے۔
➎ ضرورت کے وقت سائل اپنے سوال کی وضاحت طلب کر سکتا ہے۔
➏ کسی مسئلے پر عمل پیرا ہونے سے قبل اس کی تحقیق ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے: «العلم قبل القول والعمل» یعنی تبلیغ کرنے اور عمل کرنے سے پہلے اس کا علم ہونا ضروری ہے۔ [صحيح بخاري بعد حديث: 67]
➐ نیز دیکھئے: [الموطأحديث: 310]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 469   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3302  
´رضاعت سے کون کون سے رشتے حرام ہوتے ہیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رشتے (ماں کے پیٹ سے) پیدا ہونے سے حرام ہوتے ہیں وہی رشتے (عورت کا) دودھ پینے سے بھی حرام ہوتے ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3302]
اردو حاشہ:
شریعت اسلامیہ نے رضاعت کو بھی نسبی رشتے کی طرح تقدس عطا کیا ہے۔ جس طرح نسبی لحاظ سے محترم رشتے نکاح کے لیے حرام قراردیے گئے ہیں‘ اسی طرح رضاعت کے لحاظ سے بھی وہی رشتے نکاح کے لیے حرام قرار دیے گئےہیں۔ البتہ یہ یاد رہے کہ وہ رشتے دودھ پینے والے بچے پر ہی حرام ہوں گے‘ اس کے دیگر نسبی رشتہ داروں پر حرام نہیں ہوں گے‘ مثلاً دودھ پینے والی بچے پر اس کی رضاعی ماں اور بہن سے نکاح حرام ہے مگر اس بچے کے دیگر بھائیوں پر ان سے نکاح حرام نہیں کیا۔ گویا دودھ پینے والے پر تو اس کی رضاعی والدہ کا پورا خاندان حرام ہے مگر رضاعی ماں اور ا سکے خاندان پر بچے کا دیگر خاندان حرام نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3302   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3303  
´رضاعت سے کون کون سے رشتے حرام ہوتے ہیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے رضاعی چچا افلح نے ان کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے ان سے پردہ کیا، اس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عائشہ سے) فرمایا: ان سے پردہ مت کرو، کیونکہ نسب سے جو رشتے حرام ہوتے ہیں، وہی رشتے رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3303]
اردو حاشہ:
یہ حضرت افلح رضی اللہ عنہ حضرت عائشہؓ کے رضاعی والد کے بھائی تھے۔ حضرت عائشہؓ کا خیال تھا کہ رضاعت کی بنا پر دودھ پلانے والی کے ساتھ رشتہ قائم ہونا تو معقول بات ہے مگر اس کے خاوند کے رشتہ داروں سے رشتہ کیسے قائم ہوسکتا ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عورت کے دودھ میں اس کے خاوند کا بھی دخل ہوتا ہے‘ لہٰذا عورت کے خاوند اور اس کے رشتے داروں سے بھی پینے والے بچے کا رشتہ قائم ہوجائے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3303   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3315  
´عورت کے دودھ پلانے سے اس کے شوہر سے بھی رشتہ قائم ہوتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف فرما تھے تو انہوں نے سنا کہ ایک آدمی حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کر رہا ہے، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ شخص آپ کے گھر میں اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں نے اسے پہچان لیا ہے، وہ حفصہ کا رضاعی چچا ہے، میں نے کہا: اگر فلاں میرے رضاعی چچا زندہ ہوتے تو میرے یہاں بھی آیا کرتے؟ رسو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3315]
اردو حاشہ:
حضرت عائشہؓ کا خیال یہ تھا کہ رضاعت کے ساتھ بچے کا عورت سے تو رشتہ قائم ہوجاتا ہے کیونکہ اس نے ا س کا دودھ پیا ہے لیکن عورت کے خاوند سے کوئی رشتہ قائم نہیں ہوتا کیونکہ بچے کا تو اس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ حالانکہ عورت کو دودھ مرد کے جماع اور حمل کے نتیجے میں آتا ہے۔ گویا عورت کے دودھ میں خاوند کا بھی دخل ہے‘ لہـٰذا دودھ پینے والے بچے کا رشتہ عورت اور اس کے خاوند دونوں سے قائم ہوگا۔ عورت بچے کی ماں خاوند بچے کا باپ کہلائے گا۔ اسی طرح عورت اور اس کے خاوند کے قریبی رشتے داروں سے بھی اس بچے کا رشتہ قائم ہوجائے گا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: 3303)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3315   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1937  
´رضاعت (دودھ پلانے) سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رضاعت سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1937]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رضاعت سے مراد دودھ پلانا ہے، یعنی جب کسی بچے کو ماں کے علاوہ کوئی اور عورت دودھ پلائے تو وہ عورت بھی اسی طرح اس کی ماں شمار ہوتی ہے جس طرح جننے والی ماں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْ‌ضَعْنَكُمْ﴾ (النساء: 23)
اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا (ان سے بھی نکاح حرام ہے۔
)


(2)
رضاعت سے حرام ہونے والی عورتوں کی تفصیل یہ ہے:

    (ا)
        رضاعی ماں:
جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت (دو سال کی عمر)
کے اندر پیا ہو۔

    (ب)
    رضاعی بہن:
جس کو تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، خواہ تمہارے ساتھ یا تم سے پہلے یا بعد میں یا جس عورت کی حقیقی یا رضاعی ماں نے تمہیں دودھ پلایا ہو یعنی رضاعی ماں بننے والی عورت کی تمام نسبی اور رضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کے بہن بھائی بن جائیں گے۔

   (ج)
     رضاعی خالہ:
دودھ پلانے والی کی بہنیں دودھ پینے والے کی خالائیں بن جائیں گی۔

   (د)
     رضاعی پھوپھی:
چونکہ دودھ پلانے والی کا خاوند دودھ پینے والے کا باپ بن جائے گا اس لیے اس رضاعی باپ کی بہنیں دودھ پینے والے کی پھوپھیاں ہوں گی۔
اور رضاعی باپ کے بھائی دودھ پینے والے کے چچا تایا بن جائیں گے۔

(3)
ان رضاعی رشتوں سے نکاح کرنا اسی طرح حرام ہے جس طرح نسبی رشتوں سے لہٰذا ان میں پردہ اسی طرح فرض نہیں ہوگا جس طرح نسبی رشتوں میں پردہ فرض نہیں ہوتا۔
لڑکے کی رضاعی ماں، رضاعی بہن، رضاعی خالہ اور رضاعی پھوپھی اس سے پردہ نہیں کریں گی۔
اسی طرح لڑکی اپنے رضاعی باپ، رضاعی بھائی، رضاعی چچا، تایا اور رضاعی ماموں سے پردہ نہیں کرے گی۔

(4)
دودھ پینے والے کے دوسرے بھائی بہن، جنہوں نے اس عورت کا دودھ نہیں پیا ان کا اس عورت سے اور اس کے بچوں وغیرہ سے رضاعت کا تعلق شمار نہیں ہو گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1937   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5239  
5239. سیدنا عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرا رضاعی چچا آیا اور اس نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے اسے اجازت دین سے انکار کر دیا تا آنکہ میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھ نہ لوں، جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: بلاشبہ وہ تمہارا چچا ہے اورا سے اندر آنے دو۔ میں نے عرض کی: اللہ جے رسول! مجھے تو عورت نے دودھ پلایا ہے (اس کے) مرد نے دودھ نہیں پلایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ وہ تمہارا چچا ہے اور تمہارے پاس آ سکتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: یہ واقعہ ہم پر پردے کی پابندی عائد ہونے کے بعد کا ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی فرمایا: دودھ پلانے سے بھی وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو ولادت سے حرام ہوتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5239]
حدیث حاشیہ:
وھو أصل في أن الرضاع حکم النسب من إباحة الدخول علی النساء و غیر ذالك من الأحکام کذا في الفتح یعنی یہ حدیث اس بارے میں بطور اصل کے ہے کہ عورتوں پر غیر مردوں کا داخل ہونا مباح ہے جب کہ وہ دودھ کا رشتہ رکھتے ہوں کیونکہ دودھ کا رشتہ بھی خون ہیں کے رشتے کے برابر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5239   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2646  
2646. اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ ان کے پاس موجود تھے کہ اس دوران میں حضرت عائشہ ؓ نے ایک شخص کی آواز سنی جو حضرت حفصہ ؓ کے گھر داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میرے خیال کے مطابق یہ فلاں شخص ہے جو دودھ کے رشتے سے حضرت حفصہ ؓ کا چچا ہے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ شخص آپ کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ یہ فلاں شخص ہے جو حفصہ ؓ کا رضاعی چچا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا، اگر فلاں شخص، جو میرا رضاعی چچا تھا، آج زندہ ہوتا تو وہ میرے گھر میں بھی داخل ہو سکتا تھا؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں، جورشتے نسب کی وجہ سے محرم ہوتے ہیں وہ دودھ کے باعث بھی محرم بن جاتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2646]
حدیث حاشیہ:
الحمدللہ کہ 8 اپریل 70 ءمیں حرم نبوی مدینہ منورہ میں اس پارے کے متن کی قرات غور و فکر کے ساتھ یہاں سے شروع کی گئی اور دعاءکی گئی کہ اللہ پاک اپنے پیارے نبی ﷺ کے پیارے پیارے ارشادات کے سمجھنے اور ان کا بہترین اردو ترجمہ مع تشریح کرنے کی توفیق بخشے اور اس خدمت حدیث نبوی کو میرے لیے اور میرے جملہ متعلقین و مخلصین کے لیے قبول فرما کر ذریعہ سعادت دارین بنائے اور حاجی مرحوم بلاری پیارو قریشی بنگلوری کو جنت نصیب کرے جن کے حج بدل کے سلسلہ میں مجھ کو مدینہ منورہ کی یہ حاضری نصیب ہوئی۔
اللهم اغفر له و ارحمه وأکرم نزله و وسع مدخله آمین یا رب العٰلمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2646   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3105  
3105. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓنے فرمایا: (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تھے کہ انھوں نے ایک انسان کی آواز سنی جو حضرت حفصہ ؓ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ شخص آپ کے گھر جانے کی اجازت مانگ رہاہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرا خیال ہے یہ فلاں شخص ہے جو حضر ت حفصہ ؓ کا رضاعی چچا ہے۔ نیز فرمایا: رضاعت ہر اس چیز کو حرام کردیتی جو نسب حرام کرتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3105]
حدیث حاشیہ:
اس میں بھی گھر کو حضرت حفصہ ؓ کی طرف منسوب کیا گیا۔
جس سے باب کا مطلب ثابت ہوا کہ کسی بچے نے اپنی چچی کا دودھ پیا ہے تو چچا رضاعی باپ ہوگا۔
اور چچا کے لڑکے لڑکیاں رضاعی بھائی بہن ہوں گے۔
ان سے پردہ بھی نہیں ہے۔
کیونکہ رضاعت سے یہ سب محرم بن جاتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3105   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2646  
2646. اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ ان کے پاس موجود تھے کہ اس دوران میں حضرت عائشہ ؓ نے ایک شخص کی آواز سنی جو حضرت حفصہ ؓ کے گھر داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میرے خیال کے مطابق یہ فلاں شخص ہے جو دودھ کے رشتے سے حضرت حفصہ ؓ کا چچا ہے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ شخص آپ کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ یہ فلاں شخص ہے جو حفصہ ؓ کا رضاعی چچا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا، اگر فلاں شخص، جو میرا رضاعی چچا تھا، آج زندہ ہوتا تو وہ میرے گھر میں بھی داخل ہو سکتا تھا؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں، جورشتے نسب کی وجہ سے محرم ہوتے ہیں وہ دودھ کے باعث بھی محرم بن جاتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2646]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ ؓ کے دو رضاعی چچا تھے:
ایک ابو القعیس جنہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ دودھ پیا تھا اور وہ حضرت ابوبکر ؓ کے رضاعی بھائی تھے۔
اس نسبت سے وہ حضرت عائشہ ؓ کے رضاعی چچا ہوئے۔
اس حدیث کے مطابق وہ فوت ہو چکے تھے، دوسرے افلح نامی چچا تھے جو ابو القعیس کے بھائی تھے۔
وہ اس وقت زندہ تھے جس کا ذکر حدیث: 2644 میں آیا ہے اور ان کے ساتھ حضرت عائشہ کی گفتگو بھی ہوئی۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رضاعی چچا محرم ہے اور اس سے نکاح جائز نہیں۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مشہور رشتوں کے لیے گواہی کی ضرورت نہیں، البتہ اس سلسلے میں تحقیق ضرور کر لینی چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2646   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3105  
3105. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓنے فرمایا: (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تھے کہ انھوں نے ایک انسان کی آواز سنی جو حضرت حفصہ ؓ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ شخص آپ کے گھر جانے کی اجازت مانگ رہاہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرا خیال ہے یہ فلاں شخص ہے جو حضر ت حفصہ ؓ کا رضاعی چچا ہے۔ نیز فرمایا: رضاعت ہر اس چیز کو حرام کردیتی جو نسب حرام کرتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3105]
حدیث حاشیہ:

اس باب کی تمام مذکوراحادیث میں گھروں کی نسبت ازواج مطہرات ؓ کی طرف کی گئی ہے چنانچہ ان میں حضرت عائشہ ؓ، حضرت اُم سلمہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کی صراحت ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھر ازواج مطہرات ؓ کے تھے جبکہ قرآنی آیت سے معلوم ہوتا ہے۔
کہ وہ گھر رسول اللہ ﷺ کے تھے کہ ان کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی گئی ہے۔
اس امر میں علمائے امت کا اختلاف ہے۔
جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
ازواج مطہرات ؓ کی طرف ان گھروں کی نسبت ملکیت کی وجہ سے ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے وفات سے قبل اپنی بیویوں کو ان کا مالک بنا دیا تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد:
ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔
ان گھروں پر صادق نہیں آتا۔
رسول اللہ ﷺ کی طرف ان گھروں کی نسبت کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ گھر آپ کی ملکیت تھے اور ازواج مطہرات ؓ کی طرف ان کی نسبت مکین ہونے کی وجہ سے ہے رسول اللہ ﷺ نے انھیں رہائش کے لیے مذکورہ مکانات دیے تھے اور وہ مرتے دم تک ان میں رہائش پذیر رہیں۔

حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ان بیویوں کو گھروں کا مالک نہیں بنایا تھا اگر ایسی بات ہوتی تو ان ازواج مطہرات ؓ کی وفات کے بعد ان کے ورثاء مذکورہ مکانات کے وارث ہوتے حالانکہ ان کی وفات کے بعد ان گھروں کو گرا کر مسجد نبوی میں شامل کردیا گیا تاکہ عام مسلمانوں کو ان سے نفع پہنچے جیسا کہ نان و نفقہ کے متعلق معاملہ کیا گیا۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 254/6)

ہمارا رجحان یہ ہے کہ وہ گھر رسول اللہ ﷺ کی ملکیت تھے اور آپ کی وفات کے بعد وہ صدقہ قرارپائے البتہ ازواج مطہرات ؓ کو زندگی بھر ان میں رہائش رکھنے کی اجازت تھی جیسا کہ دیگر صدقات سے انھیں نان ونفقہ دیا جاتا تھا اسی طرح تاوفات انھیں وہ مکان رہائش کے لیے دیے گئے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں "مسکن عائشہ"ہے اس سےبھی پتہ چلتا ہے کہ وہ گھرآپ کی ملک نہیں تھا بلکہ صرف رہائش کے لیے تھا پھر آیت کریمہ میں ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں اس وقت تک کوئی داخل نہ ہو جب تک اسے رسول اللہ ﷺ اجازت نہ دیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر خاوند کا ہوتا ہے تبھی تو اسے اجازت دینے کا اختیاردیا گیا ہے بہر حال رسول اللہ ﷺنے یہ مکانات انھیں ہبہ نہیں کیے تھے بلکہ انھیں رہائش کے لیے دیے تھے کہ مرتے دم تک وہ ان میں رہائش پذیر رہیں جیسے ان کے نفقات مستثنیٰ تھے ایسے رہائش بھی مستثنیٰ تھی۔
ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء ان گھروں کے مالک نہیں بنے اور نہ کسی نے اس قسم کا دعوی ہی کیا بلکہ ان تمام گھروں کو مسجد نبوی میں شامل کردیا گیا۔
واللہ أعلم۔
نوٹ:
۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی رہائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اس طرف سے شیطانی فتنہ طلوع ہوگا۔
اس حدیث کو بنیاد بنا کر رافضیوں نے پروپیگنڈا کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا گھر فتنوں کی آما جگاہ تھا حالانکہ انھیں ایسی باتیں کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے اپنے آخری ایام حضرت عائشہ ؓ کے گھر گزارے اور زندگی کے بعد وہ آپ کا مشہد بنا۔
جو کہ اللہ کی طرف سے خیر و برکت کے نزول کا محل ہے۔
ایسی جگہ کو فتنوں کی آما جگاہ کیونکرقرار دیا جا سکتا ہے دراصل صحابہ کرام ؓ سےبغض وعناد کے نتیجے میں ایسی باتیں کہی گئی ہیں۔
امام بخاری ؒ نے دوسرے مقام پر ایک تفصیلی روایت ذکر کی ہےکہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ایک دفعہ اہل عراق سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہوئے دیکھا۔
خبردار! فتنہ ادھر سے طلوع ہوگا فتنہ اس طرف سے ظاہر ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔
(صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7092)
مدینہ طیبہ سے عراق مشرق کی طرف پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فتنوں کی آما جگاہ سر زمین عراق ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عراق کا خطہ بڑا ہنگامہ خیز اور فتنہ پرور واقع ہوا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ بالا پیش گوئی کے مطابق یہ منحوس علاقہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کی آماجگاہ ہے چنانچہ قوم نوح کے بت وداور سواع وغیرہ عراق ہی میں تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف آگ کا الاؤ تیار کرنے والا نمرودبھی اسی عراق کا فرمانروا تھا۔
حضرت عثمان ؓکے خلاف فتنہ بھی عراقی لوگوں نے برپا کیا تھا نواسہ رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے والے بھی عراقی تھے۔
حدیث اور اہل حدیث کے خلاف اہل رائےکے طوفان بھی اسی سر زمین سے اٹھے۔
اب بھی یہ خطہ اس قسم کے فتنوں کی بد ترین مثالیں قائم کیےہوئے ہے ان واقعات و شواہد کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا گھر فتنوں کی آماجگاہ نہیں تھا بلکہ یہ "شرف" سر زمین عراق کو حاصل ہوا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3105   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5099  
5099. ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں تشریف فرما تھے اور انہوں (سیدہ عائشہ ؓ) نے سنا کہ کوئی صاحب سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ے گھر میں آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! یہ شخص آپ کے گھر میں آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: میرا خیال ہے یہ فلاں شخص ہے۔ آپ نے سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ے رضاعی چچا کا نام لیا۔ اس پر سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے سوال کیا کہ فلاں، جو ان کے رضاعی چچا تھے، اگر زندہ ہوتے تو میرے پاس آ سکتے تھے؟ آپ نے فرمایا: ہاں دودھ بھی ان رشتوں کو محرم بنا دیتا ہے جنہیں خون بناتا ہے، یعنی دودھ پینے سے وہی رشتہ قائم ہو جاتا ہے جو خون سے قائم ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5099]
حدیث حاشیہ:
(1)
رضاعی چچا کی دو صورتیں ممکن ہیں:
ایک یہ ہے کہ والد کے ہمراہ جس نے دودھ پیا ہے وہ اولاد کے لیے رضاعی چچا ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ جس عورت کا دودھ پیا جائے اس کے خاوند کا بھائی دودھ پینے والے کا رضاعی چچا ہوگا۔
(2)
رضاعت سے پردہ اٹھ جاتا ہے اور اجنبیت ختم ہو جاتی ہے، یعنی جس عورت کا دودھ پیا جائے وہ ماں اور عورت کا شوہر باپ اور اس کا بھائی ماموں اور اس کی بہن رضاعی خالہ بن جاتی ہے۔
لیکن وراثت اور اخراجات کی ذمے داری اس رضاعت سے ثابت نہیں ہوتی۔
(3)
اس مسئلے میں امت کا اتفاق ہے کہ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں لیکن رضاعت کے لیے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے:
٭ کم ازکم پانچ مرتبہ دودھ پیا جائے۔
٭ مدت رضاعت، یعنی دو سال کے اندر اندر دودھ پیا جائے۔
اگر کسی نے ایک یا دو مرتبہ دودھ پیا یا مدت رضاعت کے بعد دودھ پیا تو اس سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5099   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5239  
5239. سیدنا عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرا رضاعی چچا آیا اور اس نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے اسے اجازت دین سے انکار کر دیا تا آنکہ میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھ نہ لوں، جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: بلاشبہ وہ تمہارا چچا ہے اورا سے اندر آنے دو۔ میں نے عرض کی: اللہ جے رسول! مجھے تو عورت نے دودھ پلایا ہے (اس کے) مرد نے دودھ نہیں پلایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ وہ تمہارا چچا ہے اور تمہارے پاس آ سکتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: یہ واقعہ ہم پر پردے کی پابندی عائد ہونے کے بعد کا ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی فرمایا: دودھ پلانے سے بھی وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو ولادت سے حرام ہوتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5239]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حدیث ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر ہے کہ عورتوں پر غیر مردوں کا داخل ہونا جائز ہے جبکہ وہ دودھ کا رشتہ رکھتے ہوں کیونکہ دودھ کا رشتہ خون کے رشتے کے برابر ہے لیکن اجنبیوں کی طرح قریبی رشتے داروں کو بھی اجازت حاصل کر کے داخل ہونا چاہیے کیونکہ اگر اچانک آئیں گے تو ممکن ہے کہ وہ ان سے ایسی چیز دیکھ لیں جس پر ان کے لیے اطلاع پانا جائز نہیں یا وہ ایسی حالت میں ہوں جس پر مطلع ہونے کو اچھا خیال نہ کرتی ہوں، البتہ بیوی کے ہاں اجازت کے بغیر آنا جائز ہے کیونکہ اسے ہر حالت میں دیکھنا جائز ہے۔
اس کے علاوہ ماں، بہن، بیٹی اور دوسرے محارم اجازت میں مساوی ہیں۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5239