حدیث حاشیہ: 1۔
اس باب کی تمام مذکوراحادیث میں گھروں کی نسبت ازواج مطہرات ؓ کی طرف کی گئی ہے چنانچہ ان میں حضرت عائشہ ؓ، حضرت اُم سلمہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کی صراحت ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھر ازواج مطہرات ؓ کے تھے جبکہ قرآنی آیت سے معلوم ہوتا ہے۔
کہ وہ گھر رسول اللہ ﷺ کے تھے کہ ان کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی گئی ہے۔
اس امر میں علمائے امت کا اختلاف ہے۔
جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
ازواج مطہرات ؓ کی طرف ان گھروں کی نسبت ملکیت کی وجہ سے ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے وفات سے قبل اپنی بیویوں کو ان کا مالک بنا دیا تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد:
”ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔
“ ان گھروں پر صادق نہیں آتا۔
رسول اللہ ﷺ کی طرف ان گھروں کی نسبت کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ گھر آپ کی ملکیت تھے اور ازواج مطہرات ؓ کی طرف ان کی نسبت
”مکین ہونے
“ کی وجہ سے ہے رسول اللہ ﷺ نے انھیں رہائش کے لیے مذکورہ مکانات دیے تھے اور وہ مرتے دم تک ان میں رہائش پذیر رہیں۔
2۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ان بیویوں کو گھروں کا مالک نہیں بنایا تھا اگر ایسی بات ہوتی تو ان ازواج مطہرات ؓ کی وفات کے بعد ان کے ورثاء مذکورہ مکانات کے وارث ہوتے حالانکہ ان کی وفات کے بعد ان گھروں کو گرا کر مسجد نبوی میں شامل کردیا گیا تاکہ عام مسلمانوں کو ان سے نفع پہنچے جیسا کہ نان و نفقہ کے متعلق معاملہ کیا گیا۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 254/6) 3۔
ہمارا رجحان یہ ہے کہ وہ گھر رسول اللہ ﷺ کی ملکیت تھے اور آپ کی وفات کے بعد وہ صدقہ قرارپائے البتہ ازواج مطہرات ؓ کو زندگی بھر ان میں رہائش رکھنے کی اجازت تھی جیسا کہ دیگر صدقات سے انھیں نان ونفقہ دیا جاتا تھا اسی طرح تاوفات انھیں وہ مکان رہائش کے لیے دیے گئے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں "مسکن عائشہ"ہے اس سےبھی پتہ چلتا ہے کہ وہ گھرآپ کی ملک نہیں تھا بلکہ صرف رہائش کے لیے تھا پھر آیت کریمہ میں ہے۔
”رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں اس وقت تک کوئی داخل نہ ہو جب تک اسے رسول اللہ ﷺ اجازت نہ دیں۔
“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر خاوند کا ہوتا ہے تبھی تو اسے اجازت دینے کا اختیاردیا گیا ہے بہر حال رسول اللہ ﷺنے یہ مکانات انھیں ہبہ نہیں کیے تھے بلکہ انھیں رہائش کے لیے دیے تھے کہ مرتے دم تک وہ ان میں رہائش پذیر رہیں جیسے ان کے نفقات مستثنیٰ تھے ایسے رہائش بھی مستثنیٰ تھی۔
ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء ان گھروں کے مالک نہیں بنے اور نہ کسی نے اس قسم کا دعوی ہی کیا بلکہ ان تمام گھروں کو مسجد نبوی میں شامل کردیا گیا۔
واللہ أعلم۔
نوٹ:
۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی رہائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
”اس طرف سے شیطانی فتنہ طلوع ہوگا۔
“ اس حدیث کو بنیاد بنا کر رافضیوں نے پروپیگنڈا کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا گھر فتنوں کی آما جگاہ تھا حالانکہ انھیں ایسی باتیں کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے اپنے آخری ایام حضرت عائشہ ؓ کے گھر گزارے اور زندگی کے بعد وہ آپ کا مشہد بنا۔
جو کہ اللہ کی طرف سے خیر و برکت کے نزول کا محل ہے۔
ایسی جگہ کو فتنوں کی آما جگاہ کیونکرقرار دیا جا سکتا ہے دراصل صحابہ کرام ؓ سےبغض وعناد کے نتیجے میں ایسی باتیں کہی گئی ہیں۔
امام بخاری ؒ نے دوسرے مقام پر ایک تفصیلی روایت ذکر کی ہےکہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ایک دفعہ اہل عراق سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہوئے دیکھا۔
”خبردار! فتنہ ادھر سے طلوع ہوگا فتنہ اس طرف سے ظاہر ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔
“ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7092) مدینہ طیبہ سے عراق مشرق کی طرف پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فتنوں کی آما جگاہ سر زمین عراق ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عراق کا خطہ بڑا ہنگامہ خیز اور فتنہ پرور واقع ہوا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ بالا پیش گوئی کے مطابق یہ منحوس علاقہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کی آماجگاہ ہے چنانچہ قوم نوح کے بت وداور سواع وغیرہ عراق ہی میں تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف آگ کا الاؤ تیار کرنے والا نمرودبھی اسی عراق کا فرمانروا تھا۔
حضرت عثمان ؓکے خلاف فتنہ بھی عراقی لوگوں نے برپا کیا تھا نواسہ رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے والے بھی عراقی تھے۔
حدیث اور اہل حدیث کے خلاف اہل رائےکے طوفان بھی اسی سر زمین سے اٹھے۔
اب بھی یہ خطہ اس قسم کے فتنوں کی بد ترین مثالیں قائم کیےہوئے ہے ان واقعات و شواہد کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا گھر فتنوں کی آماجگاہ نہیں تھا بلکہ یہ "شرف" سر زمین عراق کو حاصل ہوا ہے۔