الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
79. باب الْوُضُوءِ مِنَ الدَّمِ
79. باب: خون نکلنے سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 198
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ عَقِيلِ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ، فَأَصَابَ رَجُلٌ امْرَأَةَ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَحَلَفَ أَنْ لَا أَنْتَهِيَ حَتَّى أُهَرِيقَ دَمًا فِي أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ، فَخَرَجَ يَتْبَعُ أَثَرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلًا، فَقَالَ: مَنْ رَجُلٌ يَكْلَؤُنَا؟ فَانْتَدَبَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَرَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: كُونَا بِفَمِ الشِّعْبِ، قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلَانِ إِلَى فَمِ الشِّعْبِ، اضْطَجَعَ الْمُهَاجِرِيُّ وَقَامَ الْأَنْصَارِيُّ يُصَلِّ، وَأَتَى الرَّجُلُ، فَلَمَّا رَأَى شَخْصَهُ عَرَفَ أَنَّهُ رَبِيئَةٌ لِلْقَوْمِ، فَرَمَاهُ بِسَهْمٍ فَوَضَعَهُ فِيهِ فَنَزَعَهُ حَتَّى رَمَاهُ بِثَلَاثَةِ أَسْهُمٍ، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ، ثُمَّ انْتَبَهَ صَاحِبُهُ، فَلَمَّا عَرِفَ أَنَّهُمْ قَدْ نَذِرُوا بِهِ هَرَبَ، وَلَمَّا رَأَى الْمُهَاجِرِيُّ مَا بِالْأَنْصَارِيِّ مِنَ الدَّمِ، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، أَلَا أَنْبَهْتَنِي أَوَّلَ مَا رَمَى؟ قَالَ: كُنْتَ فِي سُورَةٍ أَقْرَؤُهَا فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَهَا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں نکلے، تو ایک مسلمان نے کسی مشرک کی عورت کو قتل کر دیا، اس مشرک نے قسم کھائی کہ جب تک میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کا خون نہ بہا دوں باز نہیں آ سکتا، چنانچہ وہ (اسی تلاش میں) نکلا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم ڈھونڈتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے چلا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک منزل میں اترے، اور فرمایا: ہماری حفاظت کون کرے گا؟، تو ایک مہاجر اور ایک انصاری اس مہم کے لیے مستعد ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم دونوں گھاٹی کے سرے پر رہو، جب دونوں گھاٹی کے سرے کی طرف چلے (اور وہاں پہنچے تو انہوں نے طے کیا کہ باری باری پہرہ دیں گے) تو مہاجر (صحابی) لیٹ گئے، اور انصاری کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے (اور ساتھ ساتھ پہرہ بھی دیتے رہے، نماز پڑھتے میں اچانک)، وہ مشرک آیا، جب اس نے (دور سے) اس انصاری کے جسم کو دیکھا تو پہچان لیا کہ یہی قوم کا محافظ و نگہبان ہے، اس کافر نے آپ پر تیر چلایا، جو آپ کو لگا، تو آپ نے اسے نکالا (اور نماز میں مشغول رہے)، یہاں تک کہ اس نے آپ کو تین تیر مارے، پھر آپ نے رکوع اور سجدہ کیا، پھر اپنے مہاجر ساتھی کو جگایا، جب اسے معلوم ہوا کہ یہ لوگ ہوشیار اور چوکنا ہو گئے ہیں، تو بھاگ گیا، جب مہاجر نے انصاری کا خون دیکھا تو کہا: سبحان اللہ! آپ نے پہلے ہی تیر میں مجھے کیوں نہیں بیدار کیا؟ تو انصاری نے کہا: میں (نماز میں قرآن کی) ایک سورۃ پڑھ رہا تھا، مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میں اسے بند کروں (ادھوری چھوڑوں) ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 198]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 2497)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/343، 359) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زخم سے خون بہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نہ نماز فاسد ہوتی ہے۔ جو لوگ خون کے بہنے سے وضو کے ٹوٹ جانے کے قائل ہیں، وہ ایک تو حیض اور استحاضے کے خون سے اور نکسیر کی بابت روایات سے استدلال کرتے ہیں جن میں نکسیر پھوٹنے کو بھی ناقص وضو بتلایا گیا ہے۔ حالانکہ حیض اور استحاضے کے خون کی حیثیت عام زخم سے بہنے والے خون سے یکسر مختلف ہے۔ اس لیے کہ ان کے تو احکام ہی مختلف ہیں۔علاوہ ازیں وہ خون جو شرمگاہوں سے نکلتا ہے جو بالاتفاق ناقص وضو ہے۔ جب کہ زخموں سے نکلنے والے خون کی یہ حیثیت نہیں۔ اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگوں میں زخمی ہوتے رہے اور اسی حالت میں وہ نمازیں بھی پڑھتے رہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمی صحابہ کو نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ عام زخموں سے نکلنے والا خون ناقض وضو نہیں ہے۔ علاوہ ازیں نکسیر سے وضو کرنے والی روایات سے بھی استدلال کیا جاتا ہے، جو کہ سب کی سب ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ (تفصیل دیکھیں عون المعبود)

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   صحيح ابن خزيمةرماه بسهم فوضعه فيه قال فنزعه فوضعه وثبت قائما يصلي ثم رماه بسهم آخر فوضعه فيه قال فنزعه فوضعه وثبت قائما يصلي ثم عاد له الثالثة فوضعه فيه فنزعه فوضعه ثم ركع وسجد
   سنن أبي داودمن رجل يكلؤنا فانتدب رجل من المهاجرين ورجل من الأنصار فقال كونا بفم الشعب قال فلما خرج الرجلان إلى فم الشعب اضطجع المهاجري وقام الأنصاري يصل وأتى الرجل فلما رأى شخصه عرف أنه ربيئة للقوم فرماه بسهم فوضعه فيه فنزعه حتى رماه بثلاثة أسهم ثم ركع وسجد ثم انتبه

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 198 کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود198  
مطلقاً خون کا حکم
حیض کا خون (نجس ہے)۔
حیض کے خون کے علاوہ بقیہ تمام خونوں کے نجس و پلید ہونے کے دلائل واضح و مضبوط نہیں ہیں بلکہ مضطرب، ضعیف ہیں اس لیے اصل (طہارت) کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر ہے تاوقتیکہ کوئی واضح دلیل مل جائے۔ نیز اس آیت:
«قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ»[6-الأنعام:145]
سے استدلال کرتے ہوئے خون کو نجس قرار دینا درست نہیں کیونکہ اس آیت میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ لفظ «رجس» سے مراد صرف خنزیر کا گوشت ہی ہے یا بقیہ تمام اشیاء بھی۔ اس کے برخلاف صحیح و قوی دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ بقیہ تمام خون پاک ہیں۔
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھاٹی میں اتر کر صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا: آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا؟ تو مہاجرین و انصار میں سے ایک ایک آدمی کھڑا ہو گیا پھر انہوں نے گھاٹی کے دہانے پر رات گزاری۔ انہوں نے رات کا وقت پہرے کے تقسیم کر لیا، لہٰذا مہاجر سو گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ اچانک دشمن کے ایک آدمی نے انصاری کو دیکھا اور اسے تیر مار دیا۔ انصاری نے تیر نکال دیا اور اپنی نماز جاری رکھی۔ پھر اس نے دوسرا تیر مارا تو انصاری نے پھر اسی طرح کیا۔ پھر اس نے تیسرا تیر مارا تو اس نے تیر نکال کر رکوع و سجدہ کیا اور اپنی نماز کو مکمل کر لیا۔ پھر اس نے اپنے ساتھی کو جگایا جب اس نے اسے ایسی (خون آلود) حالت میں دیکھا تو کہا: جب پہلی مرتبہ اس نے تمہیں تیر مارا تو تم نے مجھے کیوں نہیں جگایا؟ تو اس نے کہا: میں ایک سورت کی تلاوت کر رہا تھا کہ جسے کاٹنا میں نے پسند نہیں کیا۔ [أبو داود 198] ۱؎
➋ امام حسن رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ
«مَا زَالَ الْمُسْلِمُونَ يُصَلُّونَ فِي جِرَاحَاتِهِمْ»
ہمیشہ سے مسلمان اپنے زخموں میں نماز پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے معلق بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري قبل الحديث 176]
جبکہ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اسے صحیح سند کے ساتھ موصول بیان کیا ہے۔ [فتح الباري 281/1]
(البانی رحمہ اللہ) یہ حدیث (یعنی جس میں صحابی کو تیر لگنے کا قصہ ہے) [أبو داود 198] حکماً مرفوع ہے کیونکہ یہ عادۃ ناممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہ ہوئی ہو، اگر کثیر خون ناقض ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے بیان کر دیتے کیونکہ «تاخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز» ضرورت کے وقت سے وضاحت کو مؤخر کر دینا جائز نہیں۔ جیسا کہ علم الاصول میں یہ بات معروف ہے۔ اور اگر بالفرض یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مخفی رہ گئی ہو تو اللہ تعالیٰ پر یہ بات نہیں رہ سکتی تھی کہ جس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں لہٰذا اگر خون ناقض یا نجس ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی طرف وحی نازل فرما دیتے جیسا کہ یہ بات ظاہر ہے کسی پر مخفی نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ بھی اس کے قائل ہیں جیسا کہ ان کا بعض (گزشتہ مذکور) آثار معلق بیان کرنا اس کی دلیل ہے۔ [تمام المنة ص /52]
(ابن حزم رحمہ اللہ) اسی کے قائل ہیں۔ [المحلي 255/1]
فقہی اعتبار سے حیض کے خون اور بقیہ خونوں کو برابر قرار دینا دو وجوہ کی بنا پر واضح غلطی ہے۔
➊ اس پر کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ہے اور اصل براءت ذمہ ہے الا کہ کوئی نص مل جائے۔
➋ یہ سنت کے مخالف ہے جیسا کہ گزشتہ انصاری صحابی کی حدیث (انسان کے خون کے متعلق) بیان کر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں حیوان کے خون کے متعلق حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث میں مروی ہے کہ انہوں نے اونٹ کو نحر کیا تو اس کا خون اور اوجھ کا گوبر انہیں لگ گیا درایں اثناء نماز قائم کر دی گئی۔ انہوں نے بھی نماز پڑھی لیکن وضوء نہیں کیا۔ [ابن أبى شيبة 392/1] ۲؎
(شوکانی رحمہ اللہ) حیض کے خون پر بقیہ خونوں کو قیاس کرنا صحیح نہیں، نیز بقیہ خونوں کے نجس ہونے کے متعلق کوئی صریح دلیل موجود نہیں۔ [السيل الجرار 40/1]
(صدیق حسن خان رحمہ اللہ) بقیہ تمام خونوں کے نجس ہونے کے دلائل مختلف و مضطرب ہیں۔ [الروضة الندية 82/1]

اس مسئلے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(قرطبی رحمہ اللہ) خون کے نجس ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ [تفسير قرطبي 221/2]
اس کے جواب میں شیخ البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ یہ بات محل نظر ہے جیسا کہ ابھی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی گئی ہے۔ [التعليقات الرضية على الروضة الندية 110/1]
(احناف) خون پیشاب اور شراب کی طرح پلید ہے۔ اگر ایک درہم سے زائد کپڑے کو لگا ہو تو اس میں نماز جائز نہیں لیکن اگر درہم یا اس سے کم مقدار میں لگا ہو تو نماز درست ہے کیونکہ یہ اتنی قلیل مقدار ہے کہ جس سے بچنا ناممکن ہے۔ [عمدة القاري 903/1]
انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایات سے استدلال کیا ہے، لیکن وہ ضعیف ہیں۔ [تحفة الأحوذي 447/1]
(احمد رحمہ اللہ، اسحاق رحمہ اللہ) اگر مقدار درہم سے زائد خون بھی کپڑے کو لگا ہو تب بھی نماز کو نہیں دہرایا جائے گا۔ (کیونکہ یہ نجس نہیں ہے) جیسا کہ گزشتہ احادیث اس پر شاہد ہیں۔ [تحفة الأحوذي 447/1]
(راجح) امام احمد رحمہ اللہ کا موقف راجح ہے کیونکہ گزشتہ صریح دلائل اسی کے متقاضی ہیں۔
۱؎ [صحيح، صحيح أبو داود 193، كتاب الطهارة: باب الوضوء من الدم، أبو داود 198، احمد 343/3، دارقطني 322/1، ابن خزيمة 36، حاكم 1571، بيهقي 140/1]
۲؎ [صحيح: تمام المنه ص /52، عبد الرزاق 125/1، ابن أبى شيبة 392/1، طبراني كبير 284/9، الجعديات للبغوي 887/2]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 148   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 198  
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زخم سے خون بہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نہ نماز فاسد ہوتی ہے۔ جو لوگ خون کے بہنے سے وضو کے ٹوٹ جانے کے قائل ہیں، وہ ایک تو حیض اور استحاضے کے خون سے اور نکسیر کی بابت روایات سے استدلال کرتے ہیں جن میں نکسیر پھوٹنے کو بھی ناقض وضو بتلایا گیا ہے۔ حالانکہ حیض یا استحاضے کے خون کی حثییت عام زخم سے بہنے والے خون سے یکسر مختلف ہے۔ اس لیے کہ ان کے تو احکام ہی مختلف ہیں۔ علاوہ ازیں وہ خون «سبيلين» شرم گاہوں سے نکلتا ہے جو بالاتفاق ناقض وضو ہے۔ جب کہ زخموں سے نکلنے والے خون کی یہ حیثیت نہیں۔ اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگوں میں زخمی ہوتے رہے اور اسی حالت میں وہ نمازیں بھی پڑھتے رہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمی صحابہ کو نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ عام زخموں سے نکلنے والا خون ناقض وضو نہیں ہے۔ علاوہ ازیں نکسیر سے وضو کرنے والی روایات سے بھی استدلال کیا جاتا ہے جو کہ سب کی سب ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: [عون المعبود]
➋ غزوہ ذات الرقاع امام بخاری رحمہ اللہ کی ترتیب کے مطابق خیبر کے بعد ہوا تھا۔
➌ اس کی وجہ تسمیہ ایک تو یہ ہے کہ اس موقع پر مجاہدین نے اپنے پاؤں زخمی ہونے کے باعث پٹیاں باندھی تھیں۔ علاوہ ازیں بھی کچھ وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔
➍ جہاد میں بالخصوص اور دیگر مواقع پر بالعموم پہریداری کا انتظام توکل کے خلاف نہیں بلکہ مسنون اور حکمت جنگ کا ایک لازمی حصہ ہے۔
➎ مجاہدین اسلام دوران جہاد میں بھی اپنے وقت کو قیمتی اعمال میں صرف کرتے تھے جیسے کہ اس انصاری نے پہریداری کے دوران نماز اور تلاوت قرآن شروع کر دی اور وہ سورت، جو یہ مجاہد پڑھ رہا تھا، سورہ کہف تھی۔
➏ نماز اور قرآن سے محبت ہی صحابہ کرام کا امتیاز و شرف تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 198   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 36  
ایک مسلمان نے ایک مُشرک کی بیوی کو قتل کر دیا۔ (غزوہ سے فارغ ہو کر) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لانے لگے تو اُس عورت کا شوہر آ گیا جو کہ (پہلے) موجود نہ تھا۔ جب اُسے (اس کی بیوی کے قتل کے متعلق) بتایا گیا کہ تو اس نے قسم اُٹھائی کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں خون ریزی کئے بغیر باز نہیں آئے گا۔ لہٰذا... [صحيح ابن خزيمه ح: 36]
فوائد:
حدیث دلیل ہے کہ شرمگاہوں کے سوا بدن کے کسی بھی حصے سے خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
ابو طیب شمس الحق عظیم آبادی رقم طراز ہیں، یہ حدیث دو چیزوں پر واضح دلالت کرتی ہے:
➊ اکثر علماء کا موقف ہے کہ سبیلین کے سوا بدن سے خون کا نکلنا ناقضِ وضو نہیں، خواہ خون بہنے والا ہو یا نہ بہنے والا ہو۔ اور یہی موقف راجح ہے، محمد بن اسماعیل امیر یمانی سبل السلام میں لکھتے ہیں کہ مالک، شافعی اور صحابہ و تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ سبیلین کے سوا بدن سے خون کا نکلنا ناقضِ وضو نہیں، حافظ سراج الدین بن ملق البدر المنیری بیان کرتے ہیں کہ بیہقی نے معاذ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں نکسیر اور قے سے وضو کرنا لازم نہیں، ابن مسیب سے منقول ہے کہ ان کی نکسیر پھوٹی تو انہوں نے کپڑے سے ناک صاف کی، پھر نماز ادا کی اور ابن مسعود، سالم بن عبد اللہ طاؤس، حسن بصری اور قاسم سے خون نکلنے سے وضو نہ کرنا مروی ہے۔
➋ زخموں سے نکلنے والا خون طاہر ہے اور زخمیوں کے لیے (خون آلود کپڑوں میں نماز پڑھنے کی) رخصت ہے، یہ مالکیہ کا مذہب ہے اور یہی مذہب رائج ہے۔ [عون المعبود: 203/1، 204]
مزید دلائل:
➊ مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ جس رات عمر رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تھے اسی رات وہ ان کے پاس گئے اور عمر رضی اللہ عنہ کو نمازِ صبح کے لیے بیدار کیا، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ٹھیک ہے (میں اٹھتا ہوں) اور کہا: جس نے نماز ترک کی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی جب کہ ان کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔
[موطا امام مالك، باب العمل فيمن غلبه الدم من جرح اور عاف: 51، ارواء الغليل: 209، اسناده صحيح]
➋ صحیح بخاری میں کچھ اقوال منقول ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ جسم سے خون نکلنا ناقض وضو نہیں۔
1. حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اہل اسلام ہمیشہ زخموں میں نماز پڑھتے رہے ہیں۔
2. طاؤس، محمد بن علی، عطاء بن ابی رباح اور علمائے حجاز کا بیان ہے کہ خون نکلنے سے وضو کرنا لازم نہیں ہے۔
3. ابن عمر رضی اللہ عنہ نے پھوڑا صاف کیا اور اس سے خون نکلا لیکن انہوں نے وضو نہ کیا۔
4. ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے نماز میں خون تھوکا (پھر نیا وضو کیے بغیر) نماز جاری رکھی۔
5. ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمہ اللہ سینگی لگوانے والے کے متعلق کہتے ہیں اس پر وضو لازم نہیں بلکہ وہ سینگی لگنے کی جگہ دھو لے۔
[صحيح بخاري، كتاب الوضوء، باب من لم ير الوضوء الا من المخرجين من القبل والدبر]
   صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 36