عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ دو ہی رکعتیں پڑھیں (اور حفص کی روایت میں اتنا مزید ہے کہ) عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی خلافت کے شروع میں، پھر وہ پوری پڑھنے لگے، (ایک روایت میں ابومعاویہ سے یہ ہے کہ) پھر تمہاری رائیں مختلف ہو گئیں، میری تو خواہش ہے کہ میرے لیے چار رکعتوں کے بجائے دو مقبول رکعتیں ہی ہوں۔ اعمش کہتے ہیں: مجھ سے معاویہ بن قرہ نے اپنے شیوخ کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے چار رکعتیں پڑھیں، تو ان سے کہا گیا: آپ نے عثمان پر اعتراض کیا، پھر خود ہی چار پڑھنے لگے؟ تو انہوں نے کہا: اختلاف برا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1960]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1960
1960. اردو حاشیہ: اس روایت میں حضرت عثمان کا یہ عمل منقول ہے کہ انہوں نے اپنی خلافت میں (ابتدائی چھ سال کے بعد) منی ٰ میں قصر کی بجائے پوری چار رکعت پڑھنی شروع کر دی تھیں۔ اس کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے محض جواز کی بنیاد پر پوری نماز پڑھی تھی، اسی لیے پہلے چھ سال تک وہ قصر ہی کرتے رہے تھے۔ اور اسی جواز ہی کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن مسعود نے بھی حضرت عثمان کی متابعت میں پوری نماز پڑھ لی، اور اس میں اختلاف کرنے کو پسند نہیں کیا۔ حالانکہ وہ خود بیان کر رہے ہیں کہ اس سے قبل وہ قصر کرتے رہے۔ اگر پوری نماز پڑھنے کا جواز نہ ہوتا تو یقیناً اس سے اختلاف کرتے اور اختلاف کو برا کام نہ کہتے کیونکہ جس چیز کا جواز ہی نہ ہو اس سے تواختلاف کرنا ضروری ہے اس اختلاف کو تو کسی صورت میں برا کام نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم مسافر کے لیے قصر اور اتمام دونوں باتوں کے جائز سمجھنے کے باوجود وہ ڈر تے تھے کہ حضرت عثمان کی متابعت میں انہوں نے جو چار رکعتیں پڑھی ہیں کہیں وہ عند اللہ نامقبول نہ ہوں اس لیے اللہ کی طرف سے اگر دورکعتیں بھی مقبول ہو جائیں تو بڑی بات ہے بے شک چاروں رکعتیں مقبول نہ ہوں۔ ان کی یہ بات خشیت الہی اور جذبہ اتباع سنت کی مظہر ہے جن سے صحابہ کرام متصف تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1960