عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ پڑھتے سنا اور آپ اپنے سر کی تلبید ۱؎ کئے ہوئے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1747]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1747
1747. اردو حاشیہ: بال جب لمبے ہوں توانہیں سنبھالنا ایک مسئلہ ہوتا ہے لہٰذا احرام کی حالت میں انہیں زیادہ پراگندہ ہونے یا بہت زیادہ گرد و غبار سےبچانے کےلیے کسی مناسب چیز سے چپکا لیا جائے تو یہ سنت ہے اور اس کو تلبید کہتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1747
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:675
675- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ پڑھتے ہوئے سناہے: ”میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں تیرا کو ئی شریک نہیں ہے۔ میں حاضر ہوں، بے شک حمد اور نعمت تیرے لیے مخصوص ہے اور بادشاہی بھی، تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔“ راوی بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس میں ان الفاظ کا اضافہ کرتے تھے۔ ”میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، سعادت تیری طرف سے ہی نصیب ہوسکتی ہے۔ میں حاضر ہوں۔ بھلائی تیرے دست قدرت میں ہے۔ میں حاضر ہوں۔“(راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں)”تیرے دونوں ہاتھوں میں ہے۔“ سفیان بھی اسی طرح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:675]
فائدہ: سوال: کیا حج وعمرہ میں کہے جانے والے معروف تلبیہ میں اضافہ کرنا جائز ہے؟ جواب: الحمد للہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا: «لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إنّ الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك»”حاضر ہوں یا اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تعریف اور نعمتیں تیرے لیے ہی ہیں، اور تیری ہی بادشاہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات سے زیادہ کچھ نہیں کہتے تھے۔ [بخاري: 5915، مسلم: 1184] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلبیہ کے یہ الفاظ منقول ہیں: «لبيك إلـه الحق لبيك»”اے سچے معبود میں حاضر ہوں“[أحمد] البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ (2146) میں صحیح کہا ہے۔ کچھ صحابہ کرام سے ان الفاظ میں کچھ اضافہ بھی ثابت ہے۔ چنانچہ نافع کہتے ہیں کہ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما تلبیہ میں کہا: کرتے تھے: «لبيك لبيك وسعديك، والخير بيديك، لبيك والرغباء إليك والعمل» ”میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تجھ سے سعادت مندی حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوں، ہرقسم کی خیر تیرے ہاتھ میں ہے، میں حاضر ہوں، ثواب کے لیے رغبت صرف تیری طرف ہے اور عمل بھی تیرے لیے ہی ہے“[مسلم: 1184] [مصنف ابن ابي شيبه 283/4] میں مسور بن مخرمہ کہتے ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا تلبیہ اس طرح ہوتا تھا: «لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك، لبيك مرغوبا أو مرهوبا، لبيك ذا النّعماء والفضل الحسن» ”حاضر ہوں یا اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تعریف اور نعمتیں تیرے لیے ہی ہیں، اور تیری ہی بادشاہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے، تیری رحمت سے پر امید ہو کر اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے حاضر ہوں، میں حاضر ہوں نعمتوں، اور فضل و احسان کرنے والے“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو تلبیہ کے الفاظ میں اضافے پر نہیں ٹوکا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ جائز ہیں۔ چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ توحید پرمشتمل تلبیہ «لبيك اللهم لبيك، لبيك لا لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك» ”حاضر ہوں یا اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تعریف اور نعمتیں تیرے لیے ہی ہیں، اور تیری ہی بادشاہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے“ کہا، اور لوگوں نے بھی اپنے اپنے الفاظ میں تلبیہ کہا:، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے الفاظ کومسترد نہیں فرمایا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے انہی الفاظ میں تلبیہ کہتے رہے۔ [مسلم: 1218] چنانچہ حدیث کے ان مجموعی الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تلبیہ کا اہتمام کرنا افضل ہے، اور اگر کوئی شخص صحابہ کرام سے منقول الفاظ یا کسی اور کے (شرعی طور پر جائز) الفاظ کو تلبیہ میں شامل کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تلبیہ کے الفاظ ذکر کرنے کے بعد کہا ہے: ”احرام باند ھنے والے شخص کا تلبیہ انہی الفاظ پر مشتمل ہونا چاہیے، ان میں کمی زیادتی نہ کرے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے نقل کر دہ الفاظ یعنی: «لبيك إله الحق» کو شامل کرنے کی گنجائش ہے ؛ کیونکہ ان الفاظ کا مطلب بھی تلبیہ والا ہی ہے، کیونکہ اس میں بھی تلبیہ اور حاضر ہونے کے معنی پائے جاتے ہیں، تو ان الفاظ کو کہہ کر اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس نے سچے معبود کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے حاضری دی ہے۔ تاہم تلبیہ کے متعلق کسی پرسختی نہیں کرنی چاہیے، جیسے کہ ابن عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تعظیم الہٰی پرمشتمل الفاظ تلبیہ کے طور پر کہے ہیں، اور ساتھ میں دعائیہ الفاظ بھی شامل کیے ہیں لیکن میرے نزدیک پسندیدہ عمل یہی ہے کہ جو الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں انہی پر اکتفا کیا جائے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ الفاظ کے علاوہ کوئی اضافہ نہ کرے، اور جب تلبیہ بند کر دے تو پھر اللہ کی عظمت بیان کرے اور دعائیں مانگے“۔ انتہٰی مختصراً (الأم: 2/ 169-170) شیخ ابن عثیمین اللہ کہتے ہیں: مسئلہ: ”جابر رضی اللہ عنہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کردہ تلبیہ کے الفاظ میں ہم اضافہ کر سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں ہم کہیں گے: ہاں کر سکتے ہیں، کیونکہ امام أحمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تلبیہ میں فرمایا تھا: «لبيك إله الحق» ”اے سچے معبود میں حاضر ہوں“ یہاں ”إله الحق“ موصف کو صفت کی طرف مضاف کیا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ: حاضر ہوں، تو ہی معبود برحق ہے۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما ینے تلبیہ میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: «لبيك لبيك وسعديك، والخير بيديك، لبيك والرغباء إليك والعمل» اس لیے اگر کوئی انسان اس طرح کے الفاظ کا تلبیہ میں اضافہ کر لے تو ہمیں امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا، لیکن بہتر یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ الفاظ کا التزام کیا جائے“۔ انتھی (الشرح الممتع: 7/ 111) شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”تلبیہ کے مسنون الفاظ میں اضافہ کرنا جائز ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے تلبیہ کے مختلف الفاظ سنا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو ٹوکتے نہیں تھے، صحابہ کرام کی طرف سے اضافہ شدہ الفاظ میں سے کچھ یہ ہیں: «لبيك لبيك وسعديك، والخير بيديك، والشر ليس إليك، نحن عبادك الوافدون إليك، الراغبون فيما لديك» اس طرح: «لبيك والرغباء إليك والعمل» ایسے ہی «لبيك إن العيش عيش الآخرة» یا پھر «لبيك حقا حقا تعبدا ورقا» اس طرح کے تمام الفاظ جائز ہیں کیونکہ ان الفاظ میں انسان نیک اعمال کا اللہ تعالیٰ سے وعدہ اور عہد کرتا ہے، اور انہی پر گامزن رہنے کا عزم ظاہر کرتا ہے، اسی طرح ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی شایان شان حمد و ثناء بھی ہے، کیونکہ خیر وہ دیتا ہے، اس سے خیر حاصل ہوتی ہے، وہ عطا کرنے والا ہے، اس کے ہاں شرنہیں ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص اس طرح کا تلبیہ کہتا ہے تو ان شاء اللہ اس کی عبادت قبول ہوگی، اور اللہ تعالیٰ اسے بقیہ زندگی میں بھی محفوظ رکھے گا“۔ انتھی (شرح عمدة الاحکام) واللہ اعلم (اسلام سوال جواب: 220989) شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی تلبیہ میں اضافے کو جائز قرار دیا ہے۔ [حجة النبى صلى الله عليه وسلم ص 54]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 675
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1540
1540. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو لبیک پکارتے ہوئے سنا جبکہ آپ اپنے بالوں کو جمائے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1540]
حدیث حاشیہ: یعنی کسی لیس دارچیزگوند وغیرہ سےآپ ﷺ نے بالوں کو اس طرح جمالیا تھاکہ احرام کی حالت میں وہ پراگندہ نہ ہونے پائیں اسی حالت میں آپ ﷺ نے احرام باندھا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1540
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1540
1540. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو لبیک پکارتے ہوئے سنا جبکہ آپ اپنے بالوں کو جمائے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1540]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عمر ؓ کا موقف تھا کہ جس نے گیسو رکھے ہیں وہ حج کے موقع پر حلق کرے اور جمے ہوئے بالوں کی طرح انہیں مت رکھے، اس پر حضرت ابن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے عمل کا حوالہ دیا کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو بال جمائے ہوئے دیکھا ہے جبکہ آپ احرام میں تھے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5914)(2) ایک حدیث میں ہے: جس نے احرام کے وقت اپنے بالوں کو جما لیا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بالوں کا حلق کرے۔ لیکن اس روایت میں عبداللہ بن رافع نامی راوی ضعیف ہے۔ امام دارقطنی نے اس پر جرح کی ہے۔ (عمدةالقاري: 55/7) مقصد یہ ہے کہ حلق یا تقصیر کا تعلق بالوں کو جمانے سے نہیں ہے، ویسے حلق کرنا افضل اور تقصیر، یعنی بال چھوٹے کرانا جائز ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1540