الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
30. باب الصَّدَقَةِ عَلَى بَنِي هَاشِمٍ
30. باب: بنی ہاشم کو صدقہ دینا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 1650
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا عَلَى الصَّدَقَةِ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ، فَقَالَ لِأَبِي رَافِعٍ:" اصْحَبْنِي فَإِنَّكَ تُصِيبُ مِنْهَا"، قَالَ: حَتَّى آتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْأَلَهُ، فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ:"مَوْلَى الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَإِنَّا لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ".
ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، اس نے ابورافع سے کہا: میرے ساتھ چلو اس میں سے کچھ تمہیں بھی مل جائے گا، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر پوچھ لوں، چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قوم کا غلام انہیں ۱؎ میں سے ہوتا ہے اور ہمارے لیے صدقہ لینا حلال نہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الزَّكَاةِ/حدیث: 1650]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الزکاة 25 (657)، سنن النسائی/الزکاة 97 (2613)، (تحفة الأشراف:1650)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/10، 390، 12018) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ابو رافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کر دہ غلام تھے لہٰذا وہ بھی بنی ہاشم میں سے ہوئے، اس لئے ان کے لئے بھی صدقہ لینا جائز نہیں ہوا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (1829)
صححه ابن خزيمة (2344 وسنده صحيح) وللحديث شواھد عند البخاري (6761) ومسلم (1069)

   سنن أبي داودمولى القوم من أنفسهم لا تحل لنا الصدقة
   بلوغ المرام‏‏‏‏مولى القوم من انفسهم،‏‏‏‏ وإنا لا تحل لنا الصدقة

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1650 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1650  
1650. اردو حاشیہ:
➊ نبی ﷺ اور آپ کی آل کےلئے صدقات حلال نہیں ہیں۔اور اس میں بنو ہاشم اور بنو مطلب آتے ہیں۔آپ نے اپنے موالی کو بھی اسی حکم میں شامل فرمایا ہے۔حتیٰ کہ انہیں ایسی ملازمت کی بھی اجازت نہیں دی۔جس میں صدقہ کامال ملتا ہو خواہ بالواسطہ ہی سہی۔
➋ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین حلال وحرام کے معاملے میں از حد حساس تھے۔حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے اجازت لئے بغیر صدقات کےلئے عامل بننا پسند نہیں کیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1650   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 525  
´صدقات کی تقسیم کا بیان`
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مخزوم کے ایک آدمی کو زکٰوۃ کی وصولی پر مقرر فرمایا۔ اس نے ابورافع رضی اللہ عنہ کو کہا کہ تم میرے ساتھ چلو تجھے اس میں سے کچھ حصہ مل جائے گا۔ اس نے کہا میں نہیں جاؤں گا تاوقتیکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس بارے میں دریافت نہ کر لوں۔ چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قوم کا غلام بھی انہیں میں شمار ہوتا ہے اور ہمارے لئے صدقہ (زکٰوۃ) حلال نہیں ہے۔ اسے احمد اور تینوں نے روایت کی ہے اور ابن خزیمہ اور ابن حبان نے بھی۔ [بلوغ المرام/حدیث: 525]
لغوی تشریح 525:
بَعَثَ رَجُلًا آپ نے ایک آدمی کو بھیجا، اس آدمی سے مراد حضرت ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
تُصِیبُ مِنھَا اس حاصل شدہ صدقے میں سے تو اس کا معاوضہ اور اجرت لے لینا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بنوھاشم کے آزادکردہ غلاموں پر بھی زکاۃ حرام ہے۔

فائدہ 525:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس آدمی کے لیے خود زکاۃ لینا حرام ہے، اسی طرح اس کے غلام پر بھی حرام ہے۔ حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے، اس لیے ان کے لیے بھی زکاۃ لینا حرام تھا۔

راوئ حدیث:
حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے نام میں مختلف اقوال ہیں، چنانچہ انکا نام اسلم تھا یا ہرمز یا ثابت یا ابراھیم۔ قبطی تھے۔ یہ دراصل حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام تھے۔ انہوں نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ھبہ کر دیا تھا۔ انہوں نے غزوۂ بدر سے پہلے ایمان قبول کر لیا تھا مگر اس میں شریک نہیں ہوے، احد اور بعد کے غزوات میں شریک رہے۔ جب حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا تو ان کے اسلام قبول کرنے کی بشارت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر اسے آزاد فرمادیا۔ 36 ہجری میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے شروع میں مدینہ میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 525