انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر کسی پڑی ہوئی کھجور پر ہوتا تو آپ کو اس کے لے لینے سے سوائے اس اندیشے کے کوئی چیز مانع نہ ہوتی کہ کہیں وہ صدقے کی نہ ہو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الزَّكَاةِ/حدیث: 1651]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:1160)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 4 (2055)، واللقطة 6 (2431)، صحیح مسلم/الزکاة 50 (1071)، مسند احمد (3/184، 192، 258) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث الآتي (1652)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1651
1651. اردو حاشیہ:۔اصل ورع وتقویٰ یہی ہے کہ جب تک کوئی بات واضح اور حق نہ ہو اس پر اقدام کرنے سے گریز کیاجائے۔بالخصوص مشکوک رزق سے بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ ➋ کھجور یا اس طرح کی کوئی عام سی چیز گری پڑی ملے تو اسے اُٹھایا اور استعمال کیا جاسکتاہے۔اس کے لئے لقطہ والا حکم نہیں ہے۔ کہ پہلے اعلان کیا جائے اور اس کی تشہیر کی جائے۔ہاںا گرقیمتی چیز ہو تو اعلان وتشہیر لازم ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1651