جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کھڑے ہوئے تو خطبہ سے پہلے نماز ادا کی، پھر لوگوں کو خطبہ دیا تو جب اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو کر اترے تو عورتوں کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی اور آپ بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے، جس میں عورتیں صدقہ ڈالتی جاتی تھیں، کوئی اپنا چھلا ڈالتی تھی اور کوئی کچھ ڈالتی اور کوئی کچھ۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1141]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1141
1141۔ اردو حاشیہ: ➊ نماز عید سے پہلے خطبہ دینا اور اس کا نام بیان یا تقریر رکھنا سب ہی خلاف سنت ہے۔ ➋ عورتوں تک اگر خطبے کی آواز نہ پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ان کے لئے وعظ و نصیحت کاعلیحدہ طور پر اہتمام کرنا جائز ہے۔ ➌ اسلامی معاشرہ میں شرعی اور اجتماعی امور کے لئے صدقات و عطیات جمع کرنا کوئی معیوب کام نہیں۔ ➍ خواتین اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر تھوڑا بہت صدقہ کر سکتی ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1141
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1563
´عیدین میں اذان نہ دینے کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بغیر اذان اور بغیر اقامت کے خطبہ سے پہلے عید کی نماز پڑھائی۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1563]
1563۔ اردو حاشیہ: سنت یہی ہے کیونکہ اذان و اقامت پانچ وقت کی فرض نمازوں اور جمعۃ المبارک کے لیے ہے جیسا کہ متعدد احادیث سے پتہ چلتا ہے۔ غرض عیدین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل نہ تھا، اس لیے اس کا نہ کرنا ہی سنت ہے۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1563
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 961
961. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے، پہلے نماز پڑھی پھر لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ جب نبی ﷺ خطبے سے فارغ ہوئے تو اتر کر عورتوں کے پاس آئے اور انہیں نصیحت فرمائی جبکہ آپ نے حضرت بلال ؓ کے ہاتھ کا سہارا لیا ہوا تھا اور بلال اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے، عورتیں اس میں اپنے صدقات ڈال رہی تھیں۔ (راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے حضرت عطاء سے کہا کہ اب بھی آپ امام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ نماز سے فارغ ہو کر عورتوں کے پاس آئے اور انہیں نصیحت کرے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ان کی ذمہ داری تو ہے لیکن اب انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:961]
حدیث حاشیہ: یزید بن معاویہ کی وفات کے بعد 62ھ میں عبد اللہ بن زبیر ؓ کی بیعت کی گئی۔ اس سے بعضوں نے یہ نکالا ہے کہ امام بخاری ؒ کا ترجمہ باب یوں ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بلال پر ٹیکا دیا معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت عید میں سوارہوکر بھی جانا درست ہے۔ روایت میں عورتوں کو الگ وعظ بھی مذکور ہے، لہذا امام کو چاہیے کہ عید میں مردوں کو وعظ سنا کر عورتوں کو بھی دین کی باتیں سمجھائے اور ان کو نیک کاموں کی رغبت دلائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 961
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:961
961. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے، پہلے نماز پڑھی پھر لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ جب نبی ﷺ خطبے سے فارغ ہوئے تو اتر کر عورتوں کے پاس آئے اور انہیں نصیحت فرمائی جبکہ آپ نے حضرت بلال ؓ کے ہاتھ کا سہارا لیا ہوا تھا اور بلال اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے، عورتیں اس میں اپنے صدقات ڈال رہی تھیں۔ (راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے حضرت عطاء سے کہا کہ اب بھی آپ امام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ نماز سے فارغ ہو کر عورتوں کے پاس آئے اور انہیں نصیحت کرے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ان کی ذمہ داری تو ہے لیکن اب انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:961]
حدیث حاشیہ: (1) نماز عید کے لیے پیدل چل کر جانے کے متعلق حضرت علی ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے، آپ نے فرمایا کہ عیدگاہ کی جانب پیدل چل کر جانا سنت ہے۔ (جامع الترمذي، العیدین، حدیث: 530) امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کے پیش نظر لکھا ہے کہ اہل علم کی اکثریت عید کے لیے پیدل جانے کو پسند کرتی ہے، نیز ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی عذر کے بغیر سوار نہ ہو۔ لیکن امام بخاریؒ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک عید کے لیے پیدل یا سوار ہو کر جانا دونوں طرح جائز ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ شاید امام بخاری ؒ نے اس عنوان کو قائم کر کے نماز عید کے لیے پیدل جانے کے استحباب میں وارد روایات کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري: 582/2) پیدل جانے کے استحباب کے لیے جو حدیث ترمذی کے حوالے سے پیش کی گئی ہے اس میں ایک راوی حارث اعور ہے جسے امام نووی نے بالاتفاق کذاب کہا ہے، اس بنا پر یہ حدیث قابل حجت نہیں ہے۔ (نیل الأوطار: 3/325،324) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی ہیں ان میں پیدل یا سوار ہو کر جانے کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ اس اطلاق کا تقاضا ہے کہ اس کے متعلق دونوں پہلو مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام بخاری ؒ کا ایک اور احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب عورتوں کو وعظ فرمایا تو انہوں نے حضرت بلال ؓ کے ہاتھ کا سہارا لیا ہوا تھا، حالانکہ آپ نے پہلے کسی سہارے کے بغیر خطبہ دیا تھا، جب آپ کو تھکاوٹ محسوس ہوئی تو حضرت بلال ؓ کا سہارا لے لیا، اسی طرح بہتر ہے کہ عیدگاہ پیدل جائے، ہاں! ضرورت کے پیش نظر سواری کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 582/2)(2) عید کی نماز پہلے پڑھی جائے یا خطبہ دیا جائے؟ اس کے متعلق ہم آئندہ بیان کریں گے، البتہ نماز عید کے لیے اذان یا اقامت نہیں کہنی چاہیے جیسا کہ ابن عباس ؓ اور حضرت جابر ؓ سے مروی احادیث ترک اذان کے متعلق واضح ہیں، البتہ بعض دیگر روایات میں اقامت نہ کہنے کی بھی صراحت ہے، چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک یا دو مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ نماز عید اذان اور اقامت کے بغیر پڑھی ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة العیدین، حدیث: 2051(887) اگرچہ بعض فقہاء نے نماز عید کے لیے (الصلاة جامعة) کے الفاظ کہنے کی اجازت دی ہے لیکن ایسے الفاظ کہنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے کیونکہ حضرت جابر ؓ سے مروی بعض طرق میں ہے کہ نماز عید سے پہلے اذان، اقامت یا دوسرے کلمات سے اعلان کرنا صحیح نہیں۔ (فتح الباري: 583/2) لہذا نماز عید کے لیے کسی قسم کے الفاظ سے اعلان کرنا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 961