ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب حالت نماز میں تم میں سے کسی شخص کو حدث ہو جائے تو وہ اپنی ناک پکڑ کر چلا جائے ۱؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن سلمہ اور ابواسامہ نے ہشام سے ہشام نے اپنے والد عروہ سے اور عروہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، ان دونوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1114]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17043)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 138 (1222) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ناک پکڑنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اس سے لوگ سمجھیں گے کہ اس کی نکسیر پھوٹ گئی ہے کیوں کہ شرم کی بات (ہوا خارج ہو جانے کی بات) کو چھپانا ہی بہتر ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (1007) أخرجه ابن ماجه (1222) عمر بن علي المقدسي صرح بالسماع عند الدارقطني (1/157 ح 575)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1114
1114. اردو حاشیہ: یعنی اس معاملے میں نماز اور خطبے کا معاملہ تقریبا ایک ہی ہے اور بے وضو ہو جانے کی صورت میں تقریباً ناک پر ہاتھ رکھ کر چلے جانا بیان عذر کی ایک علامت بتائی گئی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1114
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1222
´جس کو نماز میں حدث ہو جائے تو وہ مسجد سے کس حالت میں باہر جائے؟` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی شخص کو نماز میں حدث ہو جائے، تو اپنی ناک پکڑ لے اور چلا جائے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1222]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ناک پر ہاتھ رکھنے کا یہ فائدہ ہے۔ کہ دیکھنے والے یہ سمجھیں گے شاید نکسیر پھوٹی ہے۔ اس لئے نماز چھوڑ کرصف سے نکل گیا ہے۔ ورنہ صف سے نکلتے ہوئے شرم آئے گی۔ کیونکہ لوگ محسوس کریں گے کہ اس کی ہوا خارج ہوئی ہے۔
(2) اس حدیث سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ خون کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ استدلال قوی نہیں کیونکہ نکسیر والا آدمی خون بند کرنے کے لئے صف سے نکل کرجاتا ہے۔ کیونکہ سر پر پانی ڈالنے سے خون رک جائے گا۔ ضروری نہیں کہ وہ وضو کرے جیسا کہ زیادہ صحیح احادیث میں صراحت ہے۔ کہ جسم سے خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ امام مالک نے مؤطا میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعید بن مسیب اور حضرت سالم بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے۔ کہ یہ حضرات نکسیر پھوٹنے پردوبارہ وضو نہیں کیا کرتے تھے۔ مؤطا کی ایک روایت میں حضرت سعید بن مسیب سے وضو کرنا منقول ہے۔ لیکن اس سے وضو لغوی یعنی منہ ہاتھ دھونا مراد لیا جاسکتا ہے کیونکہ حضرت سعد بن مسیب سے وضو نہ کرنا بھی مروی ہے۔ (مؤطا إمام مالك، الطھارۃ، باب ماجاء فی الرعاف وباب العمل فی الرعاف، حدیث 49، 48، 47)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1222