محمد بن سیرین کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش کے دن اپنے مؤذن سے کہا: جب تم «أشهد أن محمدا رسول الله» کہنا تو اس کے بعد «حي على الصلاة» نہ کہنا بلکہ اس کی جگہ «صلوا في بيوتكم»”لوگو! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو“ کہنا، لوگوں نے اسے برا جانا تو انہوں نے کہا: ایسا اس ذات نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے)، بیشک جمعہ واجب ہے، لیکن مجھے یہ بات گوارہ نہ ہوئی کہ میں تم کو کیچڑ اور پانی میں (جمعہ کے لیے) آنے کی زحمت دوں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1066]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأذان 10 (616)، 41(668)، والجمعة 14 (901)، صحیح مسلم/المسافرین 3 (699)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 35 (939)، (تحفة الأشراف: 5783)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/277) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (901) صحيح مسلم (699)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1066
1066۔ اردو حاشیہ: ➊ صحیح بخاری میں اس حدیث کا عنوان ہے: ”بارش کی وجہ سے اگر جمعہ میں حاضر نہ ہو تو رخصت ہے۔“[صحيح بخاري۔ حديث: 901] ➋ آجکل ہلکی پھلکی بارش میں تو مساجد میں آنا جانا مشکل نہیں، البتہ شدید یا مسلسل بارش میں اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ ➌ ایسے موقع پر موذن اذان میں «حي على الصلوة» اور «حي على الفلاح» کی جگہ «ألا صلو فى الر حال» کے الفاظ کہے۔ ”جس کا مطلب ہے لوگو! گھروں میں نماز پڑھ لو۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1066
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث939
´بارش کی رات میں باجماعت نماز کے حکم کا بیان۔` عبداللہ بن حارث بن نوفل سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مؤذن کو جمعہ کے دن اذان دینے کا حکم دیا، اور یہ بارش کا دن تھا، تو مؤذن نے کہا: «الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله»، پھر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: «حي على الصلاة، حي على الفلاح» کی جگہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ اپنے گھروں میں نماز ادا کر لیں، لوگوں نے یہ سنا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہنے لگے آپ نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے کہا: یہ کام اس شخصیت نے کیا ہے، جو مجھ سے افضل تھی، اور تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 939]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس سے معلوم ہوا کہ (صلو فی الرحال) کے کلمات (حی علی الصلاة) اور (حی علی الفلاح) کے عوض کہے جایئں گے۔
(2) اسلام آسانی والا دین ہے۔ اس میں بہت سی رخصتیں موجود ہیں۔ اس کے باوجود اس کے احکام پر عمل میں کوتاہی کرنا ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔
(3) جو مسئلہ کبھی کبھار سامنے آتا ہے اکثر لوگ اس سے واقف نہیں ہوتے۔ ان کے اعتراض پر ناراض ہونے کی بجائے مسئلہ کی وضاحت کردینی چاہیے۔
(4) بارش کی وجہ سے گھروں میں نماز کی اجازت صرف پنجگانہ نمازوں کےلئے ہی نہیں بلکہ جمعے کی نماز کا بھی یہی حکم ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 939
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1604
عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ ایک بارش والے دن، عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اپنے مؤذن سے فرمایا جب تم (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہ) کہو تو (حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ) نہ کہنا (صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ) کہنا، لوگوں نے گویا کہ اس کو ایک نیا کام خیال کیا تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا، کیا تم اس پر تعجب کر رہے ہو؟ یہ کام انہوں نے کیا جو مجھ سے بہتر تھے، جمعہ پڑھنا لازم ہے، اور مجھے برا معلوم ہوا کہ میں تمہیں تنگی میں مبتلا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1604]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: دَحَضْ، ذَلَلْ، زَلَقْ اور رَدَعْ سب کلمات ہم معنی ہیں کیچڑ اور گارے کو کہتے ہیں جس میں انسان پھسلتا ہے۔ فوائد ومسائل: 1۔ (صَلُّوْا فِي بُيُوتِكُمْ اور صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ اور صَلُّوا فِي الرِّحَالِ) ان سب کلمات کا مقصد مسجد میں حاضر ہونے سے رخصت دینا منظور ہے کیونکہ بقول ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اگر یہ کلمات نہ کہے جائیں تو مسجد میں آنا پڑے گا اور یہ چیز کمزوروں، بوڑھوں اور مریضوں کے لیے مشقت اوراذیت کا باعث ہو گی۔ 2۔ کلماتِ رخصت (حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ اور حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ) كی جگہ بھی کہے جا سکتے ہیں ان کو اذان کے آخر میں کہنا ضروری نہیں ہے۔ 3۔ کیچڑ اور گارے کی صورت میں جب جمعہ کے لیے مسجد میں آنا کسی کے لیے تکلیف اور مشقت کا باعث ہو تو وہ جمعہ چھوڑ سکتا ہے اور اس کی جگہ نماز ظہر گھر میں پڑھ لے گا۔ اسلام انسانوں کی سہولت اور آسانی کو ملحوظ رکھتا ہے اور مشقت وتکلیف کے اوقات میں تخفیف اور سہولت پیدا کرتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1604
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 668
668. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بارش اور کیچڑ کے دن لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور مؤذن کو حکم دیا کہ جب وہ حي على الصلاة پر پہنچے تو اس طرح کہے: "لوگو! اپنی اپنی قیام گاہوں پر نماز پڑھ لو۔" یہ سن کر وہاں موجود لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے: گویا انہوں نے اسے برا محسوس کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اسے برا خیال کیا ہے؟ حالانکہ یہ کام اس شخصیت نے کیا ہے جو مجھ سے کہیں بہتر تھی، یعنی نبی ﷺ نے۔ چونکہ اذان سے مسجد میں آنا ضروری ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ تمہیں تکلیف میں ڈالوں۔ عاصم کی روایت بھی اسی طرح ہے، البتہ اس کے آخری الفاظ اس طرح ہیں کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ تمہیں گناہ میں مبتلا کروں، تم تنگ دلی کے ساتھ گھٹنوں تک کیچڑ کو روندتے ہوئے مسجد میں آؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:668]
حدیث حاشیہ: شارحین بخاری لکھتے ہیں: مقصود المصنف من عقد ذلک الباب بیان ان الامر بالصلوٰۃ فی الرحال للاباحۃ لا للوجوب و لا للندب و الا لم یجز او لم یکن اولی ان یصلی الامام بمن حضر یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ بارش اور کیچڑ کے وقت اپنے اپنے ٹھکانوں پر ادا کرنے کا حکم وجوب کے لیے نہیں ہے، صرف اباحت کے لیے ہے۔ اگر یہ امر وجوب کے لیے ہوتا توپھر حاضرین مسجد کے ساتھ امام کا نماز ادا کرنا بھی جائز نہ ہوتا یا اولی نہ ہوتا۔ بارش میں ایسا ہوتا ہی ہے کہ کچھ لوگ آجاتے ہیں، کچھ نہیں آسکتے۔ بہر حال شارع نے ہر طرح سے آسانی کو پیش نظر رکھا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 668
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 901
901. حضرت عبداللہ بن حارث جو محمد بن سیرین کے چچا زاد ہیں، سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بارش کے وقت اپنے مؤذن سے کہا کہ أشهد أن محمدا رسول الله کے بعد حي على الصلاة مت کہنا بلکہ اس کے بجائے صلوا في بيوتكم کہنا، یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ایسا اس شخصیت نے کیا تھا جو مجھ سے کہیں بہتر تھی۔ نماز جمعہ اگرچہ فرض ہے لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ تمہیں (تنگی میں مبتلا کرتے ہوئے) اس حالت میں گھروں سے نکالوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں پھسلتے رہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:901]
حدیث حاشیہ: تشریح: حضرت ابن عباس ؓ کا مطلب یہ تھا کہ بے شک جمعہ فرض ہے۔ مگر حالت بارش میں یہ عزیمت رخصت سے بدل جاتی ہے لہذا کیوں نہ اس رخصت سے تم کو فائدہ پہنچاؤں کہ تم کیچڑ میں پھسلنے اور بارش میں بھیگنے سے بچ جاؤ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 901
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:668
668. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بارش اور کیچڑ کے دن لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور مؤذن کو حکم دیا کہ جب وہ حي على الصلاة پر پہنچے تو اس طرح کہے: "لوگو! اپنی اپنی قیام گاہوں پر نماز پڑھ لو۔" یہ سن کر وہاں موجود لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے: گویا انہوں نے اسے برا محسوس کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اسے برا خیال کیا ہے؟ حالانکہ یہ کام اس شخصیت نے کیا ہے جو مجھ سے کہیں بہتر تھی، یعنی نبی ﷺ نے۔ چونکہ اذان سے مسجد میں آنا ضروری ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ تمہیں تکلیف میں ڈالوں۔ عاصم کی روایت بھی اسی طرح ہے، البتہ اس کے آخری الفاظ اس طرح ہیں کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ تمہیں گناہ میں مبتلا کروں، تم تنگ دلی کے ساتھ گھٹنوں تک کیچڑ کو روندتے ہوئے مسجد میں آؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:668]
حدیث حاشیہ: (1)(اَلَا صلوا في الرحال) میں فعل امر ہے جو عام طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے جس سے شبہ ہوتا ہے کہ بارش کے وقت گھروں میں نماز پرھنا ضروری ہے،مسجد میں جماعت کا اہتمام نہیں ہونا چاہیے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کر کے تنبیہ فرمادی کہ موجودہ امروجوب کےلیے نہیں بلکہ اگر امام مسجد میں موجود لوگوں کو باجماعت نماز پڑھا دے تو جائز ہے۔ (2) واضح رہے کہ مذکورہ عنوان دو حصوں پر مشتمل ہے: ٭بارش کے وقت امام کا حاضرین کو نماز باجماعت پڑھانا٭جمعے کے دن بوقت بارش خطبۂ جمعہ کا اہتمام کرنا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث میں عنون کے ہر دو اجزاء سے مطابقت موجود ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش کے باوجود خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا اور جو لوگ وہاں موجود تھے انھیں نماز باجماعت بھی پڑھائی۔ (3) حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اذان سے پہلے خطبہ دیا،حالانکہ خطبے کاوقت اذان کے بعد ہے پہلے نہیں؟اس کا جواب یہ ہے اس مقام پر فعل سے مراد ارادۂفعل ہے،یعنی جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خطبہ دینے کا ارادہ کیا تو اس وقت مؤذن کو ہدایت کی کہ اذان میں(اَلاَ صلوا في الرحال) کہہ دے۔ (حاشیۃ السندی: 1/123) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 668
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:901
901. حضرت عبداللہ بن حارث جو محمد بن سیرین کے چچا زاد ہیں، سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بارش کے وقت اپنے مؤذن سے کہا کہ أشهد أن محمدا رسول الله کے بعد حي على الصلاة مت کہنا بلکہ اس کے بجائے صلوا في بيوتكم کہنا، یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ایسا اس شخصیت نے کیا تھا جو مجھ سے کہیں بہتر تھی۔ نماز جمعہ اگرچہ فرض ہے لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ تمہیں (تنگی میں مبتلا کرتے ہوئے) اس حالت میں گھروں سے نکالوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں پھسلتے رہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:901]
حدیث حاشیہ: (1) امام مالک ؒ کے نزدیک بارش وغیرہ ترک جمعہ کے لیے کوئی معقول عذر نہیں جبکہ جمہور کے نزدیک اگر بارش بہت زیادہ ہو تو نماز جمعہ میں حاضری کے لیے عذر بن سکتی ہے۔ امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث کو جمہور کی تائید میں پیش کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نماز جمعہ ادا نہیں کی بلکہ اس کی جگہ ظہر کی نماز پڑھی تھی۔ (فتح الباري: 294/2)(2) محدثین نے بیماری کو بھی عذر قرار دیا ہے اور اگر کسی مریض کی تیمارداری میں زیادہ مصروفیت کی ضرورت ہو یا اس سے دور ہونا بیماری میں اضافے کا باعث ہو تو اس صورت میں نماز جمعہ ترک کی جا سکتی ہے، البتہ اس کے بجائے نماز ظہر ادا کرنا ہو گی۔ (عمدة القاري: 52/5) صلوا في بيوتكم کے الفاظ اذان کے درمیان میں کہے جائیں یا اس سے فراغت کے بعد آخر میں ادا کیے جائیں؟ اس کی تفصیل ہم حدیث: 616 کے تحت بیان کر آئے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 901