سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انہوں نے یہ حدیث بیان کی۔ ”جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور گناہ کے بعد نیکی کرلیا کرو وہ (نیکی) اس (گناہ) کو مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔“[مسند الشهاب/حدیث: 652]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 178، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1987، والطبراني فى «الصغير» برقم: 530، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2833، وأحمد فى «مسنده» برقم: 21750»
وضاحت: تشریح: - اس حدیث مبارک میں تین باتوں کی نصیحت فرمائی گئی ہے: ① تقوی:۔۔۔۔ فرمایا: ”جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔“ تقویٰ بڑا جامع لفظ ہے، انسان خلوت میں ہو یا جلوت، میں نرمی میں ہو یا سختی میں، ہر حال میں اللہ تعالیٰ ٰ سے ڈرے اور اس کی فرمانبرداری کرے، اسی چیز کا نام تقویٰ ہے یہ ایک ایسا جامع وصف ہے جس کی وجہ سے انسان سے اعمال صالحہ صادر ہوتے ہیں اور انسان اعمال قبیحہ سے اپنا دامن بچاتا ہے۔ جس انسان کے اندر تقویٰ آجائے وہ کامیاب ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا﴾ (النباء: 31)”بے شک متقی لوگوں کے لیے کامیابی ہے۔“ ② تو بہ:۔۔۔ فرمایا: ”گناہ کے بعد نیکی کر لیا کرو وہ نیکی اسے مٹا دے گی۔“ انسانی فطرت کا یہ خاصا ہے کہ اس سے غلطیاں ہو جاتی ہیں انگریزی کا مقولہ ہے ”To Err is Human“ اگر کسی انسان کو معلوم ہو جائے کہ اس کی غلطیاں اور گناہ اس سے کبھی ساقط نہیں ہوں گے اور اسے ان کی معافی نہیں ملے گی تو وہ مایوس ہو کر مزید بغاوت پر اتر آئے گا لیکن ایک مسلمان اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اللہ نے اس پر یہ رحمت فرمائی ہے کہ گناہ معاف کر دینے اور اپنی طرف پلٹ آنے کی اس نے گنجائش رکھی ہے اگر غلطی ہو جائے تو اس کے بعد اس غلطی کو نیکی کے ذریعے مٹایا جا سکتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ بھی ہے: ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾ (هود: 114)”بے شک نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔“ ③ حسن اخلاق:۔۔۔۔۔ فرمایا: ”لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔“ حسن اخلاق کی تفصیل بیان ہو چکی ہے۔ دیکھئے حدیث نمبر 53۔