تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5398، 5399، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5240، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6709، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3769، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1830، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2115، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3262، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13452، 13453، 14767، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19056، 19066، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 884، 888، 889»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1830
´ٹیک لگا کر کھانے کی کراہت کا بیان۔` ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1830]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ٹیک لگا نے کا کیا مطلب ہے؟ اس سلسلہ میں کئی باتیں کہی جاتی ہیں:
(1) کسی ایک جانب جھک کر کھانا جیسے دائیں یا بائیں ہاتھ یا کمنی پر ٹیک لگانا،
(2) زمین پر بچھے ہوئے گدے پر اطمینان و سہولت کی خاطر آلتی پالتی مار کر بیٹھنا تاکہ کھانا زیادہ کھایا جائے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح کے بیٹھنے کو ٹیک لگا کر بیٹھنا قرار دینا صحیح نہیں ہے، حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ مستحب انداز بیٹھنے کا یہ ہے کہ پیروں کے تلوؤں پر گھٹنوں کے بل بیٹھے، یا دایاں پاؤں کھڑا رکھے اور بائیں پربیٹھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1830
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5399
5399. سیدنا ابو حجیفہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں تھا کہ آپ نے اپنےپاس موجود ایک آدمی (صحابی) سے فرمایا: ”میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5399]
حدیث حاشیہ: ہر دو احادیث سے تکیہ لگا کر کھانا منع ثابت ہو لیکن ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس اور حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہم وغیرہ سے اس کا جواز بھی نقل کیا ہے مگر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے جس کے آگے دیگر ہیچ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5399
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5399
5399. سیدنا ابو حجیفہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں تھا کہ آپ نے اپنےپاس موجود ایک آدمی (صحابی) سے فرمایا: ”میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5399]
حدیث حاشیہ: (1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ ٹیک لگا کر نہ کھانا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا، امت کے لیے منع نہیں ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے کہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی ایسا کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ متکبرین کا فعل ہے، تاہم کسی عذر کی وجہ سے ٹیک لگا کر کھایا جا سکتا ہے، لیکن حضرت ابن عباس، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہم، حضرت عبیدہ سلمانی، محمد بن سیرین، عطاء بن یسار اور امام زہری رحمہم اللہ مطلق طور پر ٹیک لگا کر کھانے کے قائل ہیں۔ (فتح الباري: 670/9) ہمارے رجحان کے مطابق ٹیک لگا کر کھانا کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ جائز اس لیے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا اور کراہت اس لیے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کے خلاف ہے۔ (2) کھانے والے کے لیے مستحب یہ ہے کہ کھاتے وقت درج ذیل صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرے: ٭ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھے جیسا کہ تشہد میں بیٹھا جاتا ہے۔ ٭ دایاں گھٹنا کھڑا کر کے بایاں پاؤں زمین پر بچھا دے۔ (فتح الباري: 671/9)(3) ٹیک لگا کر کھانے کی کراہت اس لیے ہے کہ اس سے پیٹ بڑھنے کا اندیشہ ہے جیسا کہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے اسلاف سے نقل کیا ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 140/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5399