557- بووائل بیان کرتے ہیں۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے کہا گیا: آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بات نہیں کریں گے، تو وہ بولے تم یہ سمجھتے ہو کہ میں جب ان کے ساتھ بات کروں گا، تو تمہیں سنا کر کروں گا۔ حالانکہ میں ان کے ساتھ بات کروں گا، لیکن یوں کہ میں کسی دروازے کو کھولنے والا پہلا فرد نہیں ہوں گا۔ پھر سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایک بات سنی ہے تو اس کے بعد میں کسی ایسے شخص کے بارے میں جو میرا امیر ہویہ نہیں کہوں گا کہ یہ سب سے بہتر ہے میں نے صلی اللہ علیہ وسلم تم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”(قیامت کے دن) ایک شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں حکمران تھا تو اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو اس کی آنتیں اپنی جگہ سے نکل آئیں گی اور وہ جہنم میں یوں چکر کھائے گا۔ جس طرح گدھا چکی کے گرد چکر لگاتا ہے تو اہل جہنم اس کے پاس اکٹھے ہو کر کہیں گے تم تو نیکی کا حکم نہیں دیا کرتے تھے۔؟ اورتم ہمیں برائی سے روکتے نہیں تھے؟ تو وہ کہے گا۔ میں تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیا تھا لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اور میں تمہیں برائی سے منع کرتا تھا۔ لیکن خود اس کا ارکتاب کیا کرتا تھا“ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 557]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3267، 7098، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2989، 2989، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7102، والبيهقي فى «سننه الكبير» 20266، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 22198، 22208، 22214، 22234»
يجاء بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار فتندلق أقتابه في النار فيدور كما يدور الحمار برحاه فيجتمع أهل النار عليه فيقولون أي فلان ما شأنك أليس كنت تأمرنا بالمعروف وتنهى عن المنكر قال كنت آمركم بالمعروف ولا آتيه وأنهاكم عن المنكر وآتيه
يجاء برجل فيطرح في النار فيطحن فيها كطحن الحمار برحاه فيطيف به أهل النار فيقولون أي فلان ألست كنت تأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر فيقول إني كنت آمر بالمعروف ولا أفعله وأنهى عن المنكر وأفعله
يؤتى بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار فتندلق أقتاب بطنه فيدور بها كما يدور الحمار بالرحى فيجتمع إليه أهل النار فيقولون يا فلان ما لك ألم تكن تأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر فيقول بلى قد كنت آمر بالمعروف ولا آتيه وأنهى عن المنكر وآتيه
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:557
فائدہ: اس حدیث میں اس شخص کی مذمت بیان کی گئی ہے جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا تھا، اور خود عمل نہیں کرتا تھا، اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴾(الصف: 2)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 557
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7098
7098. حضرت ابو وائل سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت اسامہ ؓ سے کہا گیا: آپ حضرت عثمان ؓ سے گفتگو کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے کسی فتنے کا دروازہ کھولے بغیر ان سے گفتگو کی ہے۔ میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ سب سے پہلے کسی فتنے کا دروازہ کھولنے والا بنوں۔ میں کسی کی اس حد تک خوشامد نہیں کرتا کہ اگر اسے دو آدمیوں پر امیر بنا دیا جائے تو اسے کہوں: تو سب سے بہتر ہے جبکہ میں نےرسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن ایک شخص کو لاکر اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اس میں گدھے کی طرح چکی پیسے گا یعنی وہ اپنی انتڑیوں کے گرد چکر لگائے گا۔ اہل جہنم اس کے گرد جمع ہو کر پوچھیں گے: اے فلاں! کیا تو امربالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کیا کرتا تھا؟ وہ کہے گا: میں اچھی بات کے لیے لوگوں کو ضرور کہتا تھا لیکن اس پر خود عمل نہیں کرتا تھا اور بری بات سے لوگوں کو منع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7098]
حدیث حاشیہ: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ تھا کہ میری نسبت تم لوگ یہ خیال نہ کرنا کہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کو نیک بات سمجھانے میں مداہنت اور سستی کرتا ہوں اور عثمان رضی اللہ عنہ کی اس وجہ سے کہ وہ حاکم ہیں خواہ مخواہ خوشامد کے طور پر تعریف کرتا ہوں۔ بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ جو شخص دو آدمیوں پر بھی حاکم بنے میں اس کی تعریف کرنے والا نہیں، اس لیے کہ حکومت بڑے مؤاخذے کی چیز ہے۔ حاکم کو عدل اور انصاف اور رعایا کی پوری خبرگیری کا انتظام کرنا چاہئے تو حاکم شخص کے لیے یہی غنیمت ہے کہ حکومت کی وجہ سے اور مؤاخذہ میں گرفتار نہ ہو چہ جائے کہ بھلائی اور ثواب حاصل کرے۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس دوزخی آدمی سے یہ حدیث بیان کر کے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ تم میری نسبت یہ گمان نہ کرنا کہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کو نیک صلاح دینے میں کوتاہی کرتا ہوں کیا میں قیامت کے دن اپنا حال اس شخص کا سا کر لوں گا جو انتڑیوں کو اٹھائے ہوئے گدھے کی طرح گھومے گا یعنی اگر میں تم لوگوں کو یہ کہوں گا کہ بری بات دیکھنے پر منع کیا کرو اور جو کوئی برا کام کرے اس کو سمجھا کر ایسے کام سے باز رکھا کروں اور خود میں ایسا نہ کروں بلکہ برے کاموں کو دیکھ کر خاموش رہ جاؤں تو میرا حال اسی شخص کا سا ہونا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7098
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3267
3267. حضرت اسامہ بن زید ؓسے روایت ہے، ان سے کہا گیا: اگر آپ فلاں (حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پاس جائیں اور ان سے بات کریں۔ اس پر حضرت اسامہ ؓنے کہا: تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ میں ان سے تمھارے سامنے ہی گفتگو کروں گا۔ میں ان سے تنہائی میں بات کرتا ہوں تاکہ کسی قسم کے فساد کا دروازہ نہ کھلے۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ سب سے پہلے میں ہی فتنے کا دروازہ کھولوں۔ میں رسول اللہ ﷺ سےایک حدیث سننے کے بعد یہ بھی نہیں کہتا کہ جو شخص میرا حاکم ہے وہ سب لوگوں سے بہتر ہے۔ لوگوں نے پوچھا: آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ حضرت اسامہؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو دوزخ میں اس کی انتڑیاں نکل پڑیں گی اور وہ اس طرح گھومتا پھرے گا جس طرح گدھا اپنی چکی کے گرد گھومتا ہے۔ پھر اہل جہنم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3267]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ سے لوگوں نے کہا: آپ حضرت عثمان ؓ سے ولید بن عقبہ کے متعلق گفتگو کریں تاکہ چہ میگوئیاں ختم ہو جائیں تو انھوں نے کہا: میں ان سے علانیہ گفتگو کرنے کی بجائے تنہائی میں بات کرتا ہوں کیونکہ علانیہ بات کرنے سے فتنے کی آگ بھڑک اٹھے گی اور میں اس کا آغاز کرنے والا بن جاؤں گا میں جس طرح لوگوں کو اچھی باتوں کا کہتا ہوں اور بری باتوں سے روکتا ہوں بعینه اپنے حکمرانوں پر بھی اچھی بات واضح کردیتا ہوں۔ اگر میں امر بالمعروف ترک کردوں تو میری مثال بھی اس شخص جیسی ہو جائے گی جس کا حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ 2۔ آپ کا مقصد یہ تھا کہ علانیہ طور پر امراء کے خلاف بات کرنا بے ادبی ہے۔ اس سے یہ باور نہ کر لیا جائے۔ کہ میں ان سے بات ہی نہیں کرتا کیونکہ ایسا انداز اختیار کرنا امر بالمعروف کے خلاف ہے۔ اس سخت وعید جو حدیث میں بیان ہوئی ہے کے پیش نظر ہمارے ان خطباء و علماء کو غور کرنا چاہیےجو اپنے علم اور وعظ کے مطابق عمل نہیں کرتے۔ دیگراں را نصیحت خود را فضیحت
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3267
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7098
7098. حضرت ابو وائل سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت اسامہ ؓ سے کہا گیا: آپ حضرت عثمان ؓ سے گفتگو کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے کسی فتنے کا دروازہ کھولے بغیر ان سے گفتگو کی ہے۔ میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ سب سے پہلے کسی فتنے کا دروازہ کھولنے والا بنوں۔ میں کسی کی اس حد تک خوشامد نہیں کرتا کہ اگر اسے دو آدمیوں پر امیر بنا دیا جائے تو اسے کہوں: تو سب سے بہتر ہے جبکہ میں نےرسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن ایک شخص کو لاکر اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اس میں گدھے کی طرح چکی پیسے گا یعنی وہ اپنی انتڑیوں کے گرد چکر لگائے گا۔ اہل جہنم اس کے گرد جمع ہو کر پوچھیں گے: اے فلاں! کیا تو امربالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کیا کرتا تھا؟ وہ کہے گا: میں اچھی بات کے لیے لوگوں کو ضرور کہتا تھا لیکن اس پر خود عمل نہیں کرتا تھا اور بری بات سے لوگوں کو منع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7098]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مادری بھائی ولید بن عقبہ نے شراب نوشی کی تو آپ نے تحقیق مکمل ہونے تک اس پر حد لگانے سے سکوت کیا۔ اس تاخیر میں لوگوں کے اندر شکوک وشبہات نے جنم لیا۔ سازشی گروہ نے اس بات کو بہت اچھالا، چنانچہ کسی نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ لوگوں میں ولید بن عقبہ کی شراب نوشی کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔ آپ اس سلسلے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: تم میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اچھی بات کہنے میں سستی یا مداہنت سے کام لیتا ہوں اور نہ میں خوشامدی ہی ہوں کہ ان کے حاکم ہونے کی وجہ سے ان کی بے جا تعریف کروں، میں نے ان سے مصلحت، ادب واحترام اوررازداری کے طور پر بات کی ہے،میں نہیں چاہتا کہ سرعام ان سے گفتگو کروں جس سے فتنے کی آگ مزید بھڑک اٹھے اور سب سے بڑھ کر میں فتنہ اٹھانے والا بن جاؤں۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ امر بالمعروف میں کوتاہی کر کے اس شخص جیسا بن جاؤں جس کا ذکر حدیث میں بیان ہواہے۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قابل تعریف رواداری اور قابل مذمت مداہنت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اچھی رواداری کا ضابطہ یہ ہے کہ اس میں دین کا کوئی پہلو مجروح نہ ہوتا ہو اور مداہنت یہ ہے کہ اس میں کسی بُری بات کی پردہ پوشی کی جائے اور باطل کو سہارا دیا جائے۔ (فتح الباري: 67/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7098