554- عامر بن سعد بیان کرتے ہیں، ایک شخص سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی خدمت میں طاعون کے بارے میں دریافت کرنے کے لئے حاضر ہوا تو اس وقت ان کے پاس سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ”: یہ عذاب ہے (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) یہ سزا ہے، جو تم سے پہلے کچھ لوگوں کی طرف بھیجی گئی تھی۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجی گئی تھی، تو کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے، تو جب یہ کسی ایسی زمین میں واقع ہو جہاں تم موجود ہو، تو تم اس جگہ سے فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے باہر نہ نکلو، اور جب تم کسی جگہ کے بارے میں اس کے بارے میں سنو تو تم اس جگہ میں داخل نہ ہو۔“ عمرو نامی راوی کہتے ہیں: ہوسکتا ہے یہ کسی قوم کے لئے عذاب اور گناہ ہو اور کسی دوسری قوم کے لئے شہادت ہو۔ سفیان کہتے ہیں: مجھے عمرو کی یہ بات بہت اچھی لگی۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 554]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3473، 5728، 6974، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2218، ومالك فى «الموطأ» برقم: 674، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2952، 2954، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7481، 7482، 7483، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1065، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6653، 6654، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 1555، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 728»
هو عذاب أو رجز أرسل على أناس ممن كان قبلكم أو على طائفة من بني إسرائيل فهو يجيء أحيانا، ويذهب أحيانا فإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا منها فرارا منه، وإذا سمعتم به في أرض فلا تدخلوها
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:554
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طاعون کی بیماری ایک عذاب ہے، جو اللہ تعالیٰ ایک قوم پر مسلط کرتے ہیں، وہاں سے بھا گنا منع ہے، اور باہر والے کا وہاں جانا ممنوع ہے، طاعون یا کوئی بھی بیماری متعدی نہیں ہے، جس قوم پر طاعون کی بیماری مسلط کر دی جائے، ان سے الگ رہنا چاہیے، کیونکہ ان پر کسی بھی وقت عذاب آ سکتا ہے، اور جب انسان کسی طاعون والی قوم میں ہو تو وہاں سے بھاگنا نہیں چاہیے، کیونکہ اس سے عذاب نہیں ٹل سکتا، اور کسی اور کو بیماری لگ سکتی ہے، اگر یہودی اپنے آپ کو اللہ کا چہیتا سمجھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب کیوں نازل کیا؟ محدث مولانا محمد عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے طاعون سے فرار کی ممانعت پر دو مستقل رسالے لکھے ہیں۔ دیکھئے: (مقالات محدث مبارک پوری، ص: 378۔ 494)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 554
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 435
´طاعون کافروں اور نافرمانوں کے لئے عذاب اور مؤمنوں کے لئے رحمت ہے` «. . . عن عامر بن سعد بن ابى وقاص عن ابيه انه سمعه يسال اسامة بن زيد: ماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول فى الطاعون؟ فقال اسامة بن زيد: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”الطاعون رجز ارسل على طائفة من بني إسرائيل او على من كان قبلكم. فإذا سمعتم به بارض فلا تدخلوا عليه وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه.“ قال مالك: قال ابو النضر: لا يخرجكم إلا فرارا منه . . .» ”. . . عامر بن سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ نے اپنے ابا (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کو سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہوئے سنا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں کیا سنا ہے؟ تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاعون ایک عذاب (بیماری) ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا تھا۔ پس اگر تمہیں کسی علاقے میں اس (طاعون) کی خبر ملے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر وہ (طاعون) تمہارے علاقے میں آ جائے تو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے باہر نہ نکلو۔“ مالک نے کہا: ابوالنضر نے (عامر سے روایت میں) کہا: یہ تمہیں راہ فرار پر مجبور کر کے نکال نہ دے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 435]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3473، ومسلم 2218، من حديث مالك به]
تفقه ➊ طاعون کافروں اور نافرمانوں کے لئے عذاب ہے اور مؤمنوں کے لئے رحمت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللهُ عَلَى مَنْ يَّشَاءُ وَأَنَّ اللهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِيْنَ، لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُوْنُ فَيَمْكُثُ فِيْ بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيْبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيْدٍ» ”یہ عذاب ہے جسے اللہ جس پر چاہتا ہے بھیج دیتا ہے اور اللہ نے اسے مؤمنوں کے لئے رحمت بنایا ہے، جو شخص بھی طاعون میں مبتلا ہوتا ہے پھر اپنے علاقے میں صبر و شکر اور نیت ثواب سے ٹھہرا رہتا ہے، وہ جانتا ہے کہ اس پر صرف وہی مصیبت آتی ہے جو اللہ نے اس کے لئے (تقدیر میں) لکھ رکھی ہے تو اسے شہید کا اجر ملتا ہے۔“[صحيح بخاري: 3474] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الطاعون شهادة لكل مسلم» ”طاعون ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے۔“[صحيح بخاري: 2830 و صحيح مسلم: 1916]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 87
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1065
´طاعون سے بھاگنے کی کراہت کا بیان۔` اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کا ذکر کیا، تو فرمایا: ”یہ اس عذاب کا بچا ہوا حصہ ہے، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ ۱؎ پر بھیجا گیا تھا جب کسی زمین (ملک یا شہر) میں طاعون ہو جہاں پر تم رہ رہے ہو تو وہاں سے نہ نکلو ۲؎ اور جب وہ کسی ایسی سر زمین میں پھیلا ہو جہاں تم نہ رہتے ہو تو وہاں نہ جاؤ۔“[سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1065]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کاحکم دیا تھا لیکن انھوں نے مخالفت کی، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے فرمایا ﴿فأرسلنا عليهم رجزاً من السماء'آیت میں'رجزاً من السماء﴾ سے مرادطاعون ہے چنانچہ ایک گھنٹہ میں ان کے بڑے بوڑھوں میں سے 24ہزارلوگ مرگئے۔
2؎: کیونکہ وہاں سے بھاگ کرتم نہیں بچ سکتے اس سے بچاؤکا راستہ توبہ واستغفارہے نہ کہ وہاں سے چلے جانا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1065
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5772
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کیا، آپ نے طاعون کے بارے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ تو حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاعون ایک قسم کا رجز یا عذاب ہے، جو بنی اسرائیل یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا، اس لیے جب تم کسی زمین میں اس کے موجود ہونے کے بارے میں سن لو تو وہاں نہ جاؤ، اور جب ایسی زمین میں پایا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5772]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) رجز: عذاب، رجس، اس حدیث میں ہم معنی الفاظ ہیں۔ (2) طاعون: بروزن فاعول: ایک عام وباء ہے اور یہ ایک تباہ کن زہریلا مواد ہے، جو انسانی جسم کے نرم حصوں، خاص کر بغل، کہنی، انگلیوں کے جوڑوں، کان کے پیچھے، گھٹنوں کے اندرونی حصہ میں، پھوڑے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، اس سے ورم اور شدید درد اٹھتا ہے، سوزش پیدا ہو جاتی ہے، اس کا اردگرد سیاہ ہو جاتا ہے، جو انتہائی خطرناک ہے، اس سے کم خطرناک اردگرد کا زرد ہونا ہے اور سب سے کم خطرناک سرخ ہونا ہے، اس سے دل دھڑکتا ہے، قے اور غشی طاری ہوجاتی ہے۔ فوائد ومسائل: طاعون کی وباء پہلی امتوں پر عذاب کی صورت میں مسلط کی گئی، بنو اسرائیل اپنے گناہوں کی پاداش میں اس سے کئی دفعہ دوچار ہوئے، جیسا کہ یہود و نصاریٰ کی کتاب ”کتاب مقدس“ کے عہد قدیم کے صحائف سے ثابت ہوتا ہے اور فرعونی بھی اس سے دوچار ہوئے، آپ نے وبائی زمین میں جانے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اس طرح ظاہری اسباب و وسائل کا ترک کرنا لازم آتا ہے، حالانکہ توکل کا معنی اسباب و وسائل کا ترک نہیں ہے، بلکہ جائز اسباب و وسائل اپنا کر نتائج اللہ کے سپرد کرنا توکل ہے اور وہاں سے بھاگنا، اسباب و وسائل ہی کو سب کچھ سمجھنا ہے اور یہ توکل کے منافی ہے، اسباب و وسائل اس وقت نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں، جب اللہ کی اجازت اور مشیت ہو، اس لیے اسلام نے اعتدال و توازن کو اختیار کیا ہے، وبائی زمین سے بھاگ کر یہ سمجھنا میں اس طرح وباء سے بچ جاؤں گا، تقدیر کا انکار ہے اور وہاں جانا، اسباب و وسائل کا انکار ہے، ابو نضر کے الفاظ، لا يخرجكم الا فرار منه کا مفہوم یہی کہنا ہو گا کہ طاعون سے فرار ہی نکلنے کا سبب نہ ہو، وگرنہ ظاہری معنی کہ تم قرار اختیار کرتے ہی نکلے، حدیث کے سیاق و سباق کے منافی ہے، اس کا معنی تو یہ ہوا، فرار کے سوا کوئی صورت جائز نہیں ہے، جبکہ ابو نضر کا مقصد، فلا تخر فرارا فرارا منه کی توضیح و تشریح ہے، مقصد یہ ہے راہ فرار اختیار کرنے کے سوا کسی اور غرض اور مقصد کے لیے نکلنا جائز ہے، مثلا تحصیل علم کے لیے، تجارت کے لیے، علاج و معالجہ کے لیے، اگر محض فرار کے لیے نکلیں گے تو اس طرح دیکھا دیکھی اہل ثروت تو نکل جائیں گے، پیچھے محتاج و ضرورت مند رہ جائیں گے، ان کو کون سنبھالے گا، ان کے کفن دفن کا انتظام کون کرے گا اور ان کے جانے کے بعد اگر اللہ کی مرضی اور مشیت سے دوسری جگہ وباء پھیل گئی تو یہی سمجھا جائے گا کہ ان کے آنے کی وجہ سے یہاں بھی وباء پھیل گئی ہے، اس طرح بیماری کے متعدی ہونے کا عقیدہ پختہ ہو گا، جو اسلام کی منشا کے منافی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5772
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3473
3473. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓسے روایت ہے، انھوں نے حضرت اسامہ بن زید ؓسے پوچھا: کیاآپ نے رسول اللہ ﷺ سےمرض طاعون کے متعلق کچھ سناہے؟ حضرت اسامہ ؓنے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”طاعون ایک عذاب ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا تھا، لہذا جب تم سنو کہ کسی ملک میں طاعون کی وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور جب اس ملک میں پھیلے جہاں تم رہتے ہوتو وہاں سے بھاگ کر نہ جاؤ۔“ راوی حدیث ابو نضر نے کہا: ”صرف طاعون سے بھاگنے کی نیت سے نہ نکلو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3473]
حدیث حاشیہ: معلوم ہواکہ تجارت، سود اگری، جہاد یا دوسری غرضوں کےلیے طاعون زدہ مقامات سے نکلنا جائز ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سےمنقول ہےکہ وہ طاعون کےزمانےمیں اپنے بیٹوں کو دیہات میں روانہ کردیتے۔ حضرت عمروبن عاص نےکہا جب طاعون آئے توپہاڑوں کی کھائیوں، جنگلوں، پہاڑوں کی چوٹیوں میں پھیل جاؤ۔ شاید ان صحابہ کویہ حدیث نہ پہنچی ہوگی۔ حضرت عمر شام کوجارہےتھےمعلوم ہواکہ وہاں طاعون ہے، واپس لوٹ آئے۔ لوگوں نے کہا اللہ کی تقدیر سےبھاگتےہیں۔ حضر ت عمر نے جواب دیا کہ ہم اللہ ک تقدیر ہی کی طرف بھاگ رہےہیں۔ طاعون میں پہلے شدید بخار ہوتا ہےپھر بغل یاگردن میں گلٹی نکلتی ہے اور آدمی مرجاتا ہے۔ طاعون کی موت شہادت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3473
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6974
6974. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے طاعون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ ایک عذاب ہے جس کے زریعے سے بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا جو کبھی آتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے۔ جو کوئی کسی سرزمین میں اس کے پھیلنے کے متعلق سنے تو وہاں نہ جائے،لیکن اگر کوئی کسی مقام پر ہو اور وہاں یہ وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے بھاگنےکی کوشش نہ کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6974]
حدیث حاشیہ: اس کا اصل سبب کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یونانی لوگ جدوار خطائی سے‘ ڈاکٹر لوگ ورم پر برف کا ٹکڑا رکھ کر اور بدوی لوگ داغ دے کر اس کا علا ج کرتے ہیں مگر موت سے شاذونادر ہی بچتے ہیں۔ اس لیے مقام طاعون سے بھاگنا گویا موت سے بھاگنا ہے جو اپنے وقت پر ضرور آ کر رہے گی۔ مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ گھر یا محلہ بدلنا بستی چھوڑ کر پہاڑ پر چلے جانا تا کہ صاف آب وہوا مل سکے فرار میں داخل نہیں ہے‘ واللہ أعلم بالصواب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6974
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3473
3473. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓسے روایت ہے، انھوں نے حضرت اسامہ بن زید ؓسے پوچھا: کیاآپ نے رسول اللہ ﷺ سےمرض طاعون کے متعلق کچھ سناہے؟ حضرت اسامہ ؓنے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”طاعون ایک عذاب ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا تھا، لہذا جب تم سنو کہ کسی ملک میں طاعون کی وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور جب اس ملک میں پھیلے جہاں تم رہتے ہوتو وہاں سے بھاگ کر نہ جاؤ۔“ راوی حدیث ابو نضر نے کہا: ”صرف طاعون سے بھاگنے کی نیت سے نہ نکلو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3473]
حدیث حاشیہ: 1۔ طاعون ایک وبائی مرض ہے جو سخت درد ناک اور جلن کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے بغلوں میں ورم آتا ہے پھر چاروں اطراف سیاہ سبز ہو جاتی ہیں۔ دل گھبراتا ہے قے آنا شروع ہو جاتی ہے بالآخر اس سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے بنی اسرائیل پر عذاب کی شکل میں اس کا ظہور ہوا البتہ اس امت کے لیے گناہوں کا کفارہ ہے۔ 2۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس جگہ طاعون پھیلا ہو وہاں سے کسی دوسری جگہ راہ فراراختیار کرتے ہوئےنہیں جانا چاہیے البتہ بغرض تجارت حصول علم اور جہاد وغیرہ کے لیے نکلنا جائز ہے راوی حدیث ابو نضر کی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ جب تمہارا نکلنا صرف طاعون سے فرار کے لیے ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ یعنی جس نکلنے سے منع کیا گیا ہے وہ محض فرار کے طور پر وہاں سے بھاگنا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3473
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6974
6974. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے طاعون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ ایک عذاب ہے جس کے زریعے سے بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا جو کبھی آتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے۔ جو کوئی کسی سرزمین میں اس کے پھیلنے کے متعلق سنے تو وہاں نہ جائے،لیکن اگر کوئی کسی مقام پر ہو اور وہاں یہ وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے بھاگنےکی کوشش نہ کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6974]
حدیث حاشیہ: 1۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر تو واقع ہو کر رہتی ہے پھر وبائی امراض سے احتیاطی تدابیر کے کیا معنی کہ وہاں سے مت نکلو جہاں وبا پھیلی ہو اور وہاں مت جاؤ جہاں وبا پھیلی ہو؟ اس کا بہترین جواب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیا تھا جب ان سے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: امیر المومنین! کیا آپ اللہ کی تقدیرسے فرار ہونا چاہتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی کی طرف فرار ہوتے ہیں اگر تم ایسی وادی میں پڑاؤ کرو جہاں سر سبز اور خشک علاقہ ہو اگر سر سبز علاقے میں اپنے اونٹ چراؤ تو یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے اور خشک علاقے میں اونٹ چریں تو بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5729) 2۔ بہر حال انسان کو حیلہ سازی سے کام نہیں لینا چاہیے کہ وہاں سے بھاگے تو طاعون سے بچنے کے لیے لیکن بہانہ یہ کرے کہ میں اپنے دوستوں سے ملنے جا رہا ہوں واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6974