الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
3. حدیث نمبر 553
حدیث نمبر: 553
553 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ كَمْ مَرَّةٍ لَا أُحْصِيهِ لَا أَعُدُّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ: سُئِلَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَأَنَا إِلَي جَنْبِهِ وَكَانَ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ حَتَّي أَتَي الْمُزْدَلِفَةَ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ حِينَ دَفَعَ؟ قَالَ «كَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ؟ فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ» قَالَ سُفْيَانُ قَالَ هِشَامٌ «وَالنَّصُّ فَوْقَ الْعَنَقِ»
553- ہشام بن عروہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا میں اس وقت ان کے پہلو میں موجود تھا، وہ عرفہ سے مزدلفہ آنے تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار پر بیٹھے رہے تھے۔ (سوال یہ تھا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس رفتار سے چلے تھے؟ تو انہوں نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم درمیانی رفتار سے چلتے رہے تھے، جب کوئی بلندی آتی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفتار ذرا تیز کردیتے تھے۔
سفیان نے ہشام کا یہ قول نقل کیا ہے نص کا لفظ عنق کے مقابلے میں ذرا زیادہ تیز رفتار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 553]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 139، 181، 1666، 1667، 1669، 1672، 2999، 4413، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1280، 1286، ومالك فى «الموطأ» برقم:، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 64، 973، 2824، 2844، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1594، 3857، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1715، 6597، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 608، 3011، 3018، 3023، 3024، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1592، 3993، 4000، 4004، 4005، 4006، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1921، 1923،1924، 1925، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1922، 1923، 1924، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3017، 3019، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 390، 9580، 9581، 9582، 9583، 9584، 9595، 9596، 9628، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 1854، 22156،22163، 22170، 22174، 22175، 22179، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 658، 663، 670، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6722، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 14232، 15893»

   سنن أبي داودالصلاة أمامك ركب حتى قدمنا المزدلفة فأقام المغرب ثم أناخ الناس في منازلهم ولم يحلوا حتى أقام العشاء وصلى ثم حل الناس
   مسندالحميديكان يسير العنق؟ فإذا وجد فجوة نص

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 553 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:553  
فائدہ:
اس حدیث میں ڈرائیونگ کے بعض آداب بیان ہوئے ہیں کہ جب راستہ خالی ہوتو سواری کی سپیڈ تیز کر دینی چاہیے، جبکہ رش والی جگہ پر درمیانی چال دوڑانی چاہیے، اس میں خیر ہے۔ بعض لوگ اس قدر تیز ڈرائیونگ کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ، بلکہ وہ اپنی جان پر ظلم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ردیف سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے سوار کو کہتے ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 553   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1921  
´عرفات سے لوٹنے کا بیان۔`
کریب کہتے ہیں کہ میں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے پوچھا: جس شام کو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو کر آئے تھے آپ نے کیا کیا کیا؟ وہ بولے: ہم اس گھاٹی میں آئے جہاں لوگ اپنے اونٹ رات کو قیام کے لیے بٹھاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی بیٹھا دی، پھر پیشاب کیا، (زہیر نے یہ نہیں کہا کہ پانی بہایا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا پانی منگایا اور وضو کیا، جس میں زیادہ مبالغہ نہیں کیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! نماز، (پڑھی جائے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز آگے چل کر (پڑھیں گے)۔‏‏‏‏ اسامہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے یہاں تک کہ مزدلفہ آئے، وہاں آپ نے مغرب پڑھی پھر لوگوں نے اپنی سواریاں اپنے ٹھکانوں پر بٹھائیں یہاں تک کہ عشاء کی اقامت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی، پھر لوگوں نے اونٹوں سے اپنے بوجھ اتارے، (محمد کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ کریب کہتے ہیں) پھر میں نے پوچھا: صبح ہوئی تو آپ لوگوں نے کیسے کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سوار ہوئے، اور میں پیدل قریش کے لوگوں کے ساتھ ساتھ چلا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1921]
1921. اردو حاشیہ: مزدلفہ میں مغرب اورعشاء کی نمازیں جمع کرکے ہی پڑھی گئی تھیں۔دونوں نمازوں کے مابین سواریوں کو بٹھانا یا تو سواریوں پرشفقت کی غرض سے تھا یا یہ کہ کہیں وہ بکھر نہ جایئں۔ بہرحال یہ معمولی سا کام (جمع بین الصلواتین) کے منافی نہیں سمجھا جاسکتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1921