حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال (عمرہ کرنے کے ارادہ سے) مدینہ سے چلے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب ایک ہزار چند سو آدمی تھے ذوالحلفیہ میں پہنچ کر قربانی کے گلے میں ہار ڈال کر اس کا شعار کیا اور عمرہ کا احرام باندھا اور ایک خزاعی آدمی کو جاسوسی کے روانہ کیا تاکہ کی خبروں سے مطلع کرے، ادھر جاسوس کو روانہ کیا ادھر خود چل پڑے وادی کے قریب پہنچے تھے کہ جاسوس واپس آیا اور عرض کیا کہ قریش نے آپ کے مقابلہ کے لئے بہت فوجیں جمع کی ہیں اور مختلف قبائل کو اکٹھا کیا ہے وہ آپ سے لڑنے کے لئے تیار ہیں اور خانہ کعبہ میں داخل ہونے سے آپ کو روک دیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمراہیان کو مخاطب کرکے فرمایا لوگو! کیا مشورہ ہے کیا میں ان کے اہل و عیال کی طرف مائل ہوجاؤں اور جو لوگ خانہ کعبہ سے مجھے روکنا چاہتے ہیں میں ان کے اہل و عیال کو گرفتار کرلوں اگر وہ لوگ اپنے بال بچوں کی مدد کو آئیں گے تو ان کا گروہ ٹوٹ جائے گ اور نہ ہم ان کو مفلس کرکے چھوڑ دیں گے بہرحال ان کا نقصان ہے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ خانہ کعبہ کی نیت سے چلے ہیں لڑائی کے ارادے سے نہیں نکلے آپ کو خانہ کعبہ کا رخ کرنا چاہئے پھر جو ہم کو روکے گا ہم اس سے لڑیں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا (تو خدا کا نام لے کر چل دو) چناچہ سب چلے دئیے۔ اثنا راہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خالد بن ولید قریش کے (دو سو) سواروں کو لئے (مقام) غمیم میں ہمارا راستہ روکے پڑا ہے لہٰذا تم بھی داہنی طرف کو ہی (خالد کی جانب) چلو سب لوگوں نے دہنی طرف کا رخ کرلیا اور اس وقت تک خالد کو خبر نہ ہوئی جب تک لشکر کا غبار اڑتا ہوا انہوں نے دیکھ لیا، غبار اڑتا دیکھ کر خالد نے جلدی سے جاکر قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے ڈرایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب معمول چلتے رہے یہاں تک کہ جب اس پہاڑی پر پہنچے جس کی طرف سے لوگ مکہ میں اترتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی لوگوں نے بہت کوشش کی لیکن اونٹنی نہ اٹھی وہیں جم گئی لوگ کہنے لگے کہ قصواء (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا نام تھا) اڑ گئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قصواء خود نہیں اڑی ہے اس کی یہ عادت ہی نہیں ہے بلکہ اس کو اس نے روک دیا ہے جس نے اصحاب فیل کو روکا تھا۔ پھر فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مکہ والے عظمت حرم برقرار رکھنے کے لئے مجھ سے جو کچھ خواہش کریں گے میں دے دوں گا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو جھڑکا اونٹنی فوراً اٹھ کھڑی ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ والوں کی راہ سے بچ کر دوسری طرف کا رخ کرکے چلے اور حدیبیہ سے دوسری طرف اس جگہ اترے جہاں تھوڑا تھوڑا پانی تھا۔ لوگوں نے وہی تھوڑا پانی لے لیاجب سب پانی کھینچ چکے اور پانی بالکل نہ رہا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی نہ ہونے کی شکایت آئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر صحابہ رضی اللہ عنہ کو دیا اور حکم دیا کہ اس کو پانی میں رکھ دو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے حکم کی تعمیل کی۔ جونہی تیر کو پانی میں رکھا فوراً پانی میں ایسا جوش آیا کہ سب لوگ سیراب ہو کر واپس ہوئے اور پانی پھر بھی بچ رہا۔ یہ کہہ کر بدیل چلا گیا اور قریش کے پاس پہنچ کر ان سے کہا ہم فلاں آدمی کے پاس سے تمہارے پاس آئے ہیں اس نے ہم سے ایک بات کہی ہے اگر تم چاہو تو ہم تمہارے سامنے اس کا اظہار کردیں قریش کے بیوقوف آدمی تو کہنے لگے ہم کو کوئی ضرورت نہیں کہ تم اس کی باتیں ہمارے سامنے بیان کرو لیکن سمجھ دار لوگوں نے کہا تم ان کا قول بیان کرو۔ بدیل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام فرمان نقل کردیا یہ سن کر عروہ بن مسعود کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے قوم کیا میں تمہارا باپ نہیں ہوں۔ سب نے کہا بیشک ہو کہنے لگا کیا تم میری اولاد نہیں ہو سب نے کہا ہیں عروہ بولا کیا تم مجھے مشکوک آدمی سمجھتے ہو؟ سب نے کہا نہیں عروہ بولا کیا تم کو معلوم نہیں اہل عکاظ کو میں نے ہی تمہاری مدد کے لئے بلایا تھا اور جب وہ نہ آئے تو میں اپنے اہل و عیال اور متعلقین و زیردست لوگوں کو لے کر تم سے آکر مل گیا سب نے کہا بیشک عروہ بولا اس شخص نے سب سے پہلے ٹھیک بات کہی ہے تم اس کو قبول کرلو اور مجھ کو اس کے پاس جانے کی اجازت دو۔ لوگوں نے کہا جاؤ۔ عروہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی وہی کلام کیا جو بدیل سے کیا تھا۔ عروہ بولا: محمد! دیکھو اگر تم (غالب ہو جاؤ گے اور) اپنی قوم کی بیخ کنی کر دو گے تو کیا اس سے پہلے تم نے کسی کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی ہی قوم کی جڑ کاٹی ہو اور اگر دوسری بات ہو (قریش غالب آئے) تو اللہ کی قسم مجھے بہت سے چہرے ایسے نظر آ رہے ہیں کہ تم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے کیونکہ مختلف قوموں کی اس میں بھرتی ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غصہ میں آ کر فرمایا کیا ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟ عر وہ بولا: یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا: ابوبکر ہیں۔ عروہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بولا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تمہارا گزشتہ احسان مجھ پر نہ ہوتا جس کا میں بدلہ نہ دے سکا ہوں تو ضرور میں اس کا جواب دیتا یہ کہہ کر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا اور بات کرتے ہوئے بار بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی پکڑ لیتا تھا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تلوار لئے زرہ پہنے (نگرانی کے لئے) کھڑے تھے، عروہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی پکڑنے کے لئے ہاتھ جھکاتا تھا، مغیرہ تلوار کے قبضہ کی نوک عروہ کو مار کر کہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے ہاتھ ہٹا لے عروہ ہاتھ ہٹا لیتا تھا آخرکار عروہ نے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ہیں عروہ بولا: او دغا باز کیا میں نے تیری دغابازی کے مٹانے میں تیری لئے کوشش نہیں کی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ مغیرہ بن شعبہ جاہلیت کے زمانہ میں ایک قوم کے پاس جا کر رہے تھے اور دھوکے سے ان کو قتل کر کے مال لے کر چلتے ہوئے تھے اور پھر آ کر مسلمان ہو گئے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت لیتے وقت فرما دیا تھا کہ اسلام تو میں قبول کرتا ہوں لیکن مال والے معاملے میں مجھے کوئی تعلق نہیں، حاصل کلام یہ ہے کہ عروہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو دیکھنے لگا، اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو لعاب دہن منہ سے پھینکتے تھے تو زمین پر گرنے سے قبل جس شخص کے ہاتھ لگ جاتا تھا وہ اس کو اپنے چہرہ پر مل لیتا تھا اور جو بال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گرتا تھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ زمین پر گرنے سے قبل اس کو لے لیتے تھے جس کام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے تھے ہر ایک دوسرے سے پہلے اس کے کرنے کو تیار ہو جاتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی پر کشت و خون کے قریب نو بت پہنچ جاتی تھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کلام کرتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پست آواز سے باتیں کرتے تھے اور انتہائی عظمت کی وجہ سے تیز نظر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ دیکھتے تھے۔ یہ سب باتیں دیکھنے کے بعد عروہ واپس آیا اور ساتھیوں سے کہنے لگا: اے قوم! اللہ کی قسم میں بادشاہوں کے پاس قاصد بن کر گیا ہوں۔ قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی رہا ہوں لیکن میں نے کبھی کوئی بادشاہ ایسا نہیں دیکھا کہ اس کے آدمی اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اس کی تعظیم کرتے ہیں اللہ کی قسم جب وہ تھوک پھینکتا ہے تو جس شخص کے ہاتھ وہ لگ جاتا ہے وہ اس کو اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیتا ہے اگر وہ کسی کام کا حکم دیتا ہے تو ہر ایک دوسرے سے پہلے اس کی تعمیل کرنے کو تیار ہو جاتا ہے جس وقت وہ وضو کرتا ہے تو اس کے وضو کے پانی پر لوگ کشت وخون کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اس کے سامنے کلام کرتے وقت سب آوازیں پست رکھتے ہیں اور اس کی تعظیم کے لئے کوئی نظر اٹھا کر اس کی طرف نہیں دیکھتا اس نے تمہارے سامنے بہترین بات پیش کی ہے لہٰذا تم اس کو قبول کر لو۔ عروہ جب اپنا کلام ختم کر چکا تو قبیلہ بنی کنانہ کا ایک آدمی بولا: مجھے ذرا ان کے پاس جانے کی اجازت دو سب لوگوں نے اس کو جانے کی اجازت دی وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کے ارادہ سے چل دیا جب سامنے سے نمودار ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ فلاں شخص فلاں قوم میں سے ہے اس کی قوم قربانی کے اونٹوں کی بہت عزت و حرمت کرتی ہے لہٰذا قربانی کے اونٹ اس کی نظر کے سامنے کر دو حسب الحکم قربانی کے اونٹ اس کے سامنے پیش کئے گئے اور لوگ لبیک کہتے ہوئے اس کے سامنے آئے جب اس نے یہ حالت دیکھی تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو کعبہ سے روکنا کسی طرح مناسب نہیں یہ دیکھ کر وہ واپس آیا اور اپنی قوم سے کہنے لگا میں نے ان کے اونٹوں کے گلے میں ہار پڑے دیکھے ہیں اور اشعار کی علامت دیکھی ہے، میرے نزدیک مناسب نہیں کہ خانہ کعبہ سے ان کو روکا جائے۔ اس کی تقریر سن کر مکرز نامی ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا ذرا مجھے ان کے پاس تو جانے دوسب نے اجازت دے دی اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے ارادہ سے چل دیا صحابہ کے سامنے نمودار ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مکرز ہے اور شریر ہے مکرز خدمت میں پہنچ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ گفتگو کی، گفتگو کر ہی رہا تھا کہ قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو آگیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا اب تمہارا مقصد آسان ہو گیاسہیل نے آکر عرض کیا لائیے ہمارا اپنا ایک صلح نام لکھئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کا تب کو بلوایا اور فرمایا لکھو «بسم الله الرحمن الرحيم» سہیل بولا: اللہ کی قسم میں رحمن کو تو جانتا ہی نہیں کہ کیا چیز ہے؟ یہ نہ لکھو بلکہ جس طرح پہلے باسمک اللہم لکھا کرتے تھے وہی اب لکھو مسلمان بولے: اللہ کی قسم ہم تو بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی لکھیں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا باسمک اللہم ہی لکھ دو اس کے بعد فرمایا لکھو یہ صلح نامہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی ہے سہیل بولا: اللہ کی قسم اگر ہم کو یہ یقین ہوتاکہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر کعبہ سے آپ کو نہ روکتے اور نہ آپ سے لڑتے اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ لکھو بلکہ محمد بن عبداللہ لکھو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اگرچہ مجھے نہ مانو لیکن اللہ کی قسم میں اللہ کا رسول ہوں (اچھا) محمد بن عبداللہ ہی لکھ دو۔ زہری کہتے ہیں یہ نر می حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے کی کہ پہلے فرماچکے تھے کہ جس بات میں حر م الہٰی کی عزت و حر مت برقرار رہے گی اور قریش مجھ سے اس کا مطالبہ کریں گے تو میں ضرور دے دوں گا خیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ صلح نامہ اس شرط پر ہے کہ تم لوگ ہم کو خانہ کعبہ کی طرف جانے دو تاکہ ہم طواف کر لیں سہیل بولا: اللہ کی قسم عرب اس کا چرچا کریں گے کہ ہم پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا گیا (اس لئے اس سال نہیں) آئندہ سال یہ ہو سکتا ہے کا تب نے یہ بات بھی لکھ دی پھر سہیل نے کہا کہ صلح نامہ میں یہ شرط بھی ہونی چاہئے کہ جو شخص ہم میں سے نکل کر تم سے مل جائے گا وہ خواہ تمہارے دین پر ہی ہو لیکن تم کو واپس ضرور کرنا ہو گا مسلمان کہنے لگے سبحان اللہ جو شخص مسلمان ہو کر آ جائے وہ مشرکوں کو کیسے دیا جا سکتا ہے۔ لوگ اسی گفتگو میں تھے کہ سہیل بن عمرو کا بیٹا ابوجندل بیڑیوں میں جکڑا ہو آیا جو مکہ کے نشیبی علاقہ سے نکل کر بھاگ آیا تھا، آتے ہی مسلمانوں کے سامنے گر پڑا سہیل بولا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب سے پہلی شرط ہے جس پر میں تم سے صلح کروں گا اس کو تم ہمیں واپس دے دو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تو ہم صلح نامہ مکمل نہیں لکھ پائے ہیں، سہیل بولا: اللہ کی قسم! پھر میں کبھی کسی شرط پر صلح نہیں کروں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی تو مجھے اجازت دے دو، سہیل نے کہا: میں اجازت نہ دوں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں یہ تو کردو سہیل بولا: نہیں کروں گا مکرز بولا: ہم اس کی تو تم کو اجازت دیتے ہیں (لیکن مکرز کا قول تسلیم نہیں کیا گیا) ابوجندل بولے: مسلمانو! میں مسلمان ہو کر آگیا پھر مجھے مشرکوں کو واپس دیا جائے گا حالانکہ جو تکلیفیں میں نے ان کی طرف سے برداشت کیں وہ تم دیکھ رہے ہو یہ واقعہ ہے کہ ابوجندل کو کافروں نے سخت عذاب دیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہے؟ فرمایا: ہوں، کیوں نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا تو کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہیں کیوں نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا تو ہم اپنے دین میں ذلت پیدانہ ہونے دیں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا وہی میرا مددگار ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا آپ نے ہم سے نہیں کہا: تھا کہ عنقریب ہم خانہ کعبہ پہنچ کر طواف کریں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہ تو میں نے کہا: تھا لیکن کیا تم سے یہ بھی کہا: تھا کہ اسی سال ہم وہاں پہنچ جائیں گے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں یہ تو نہیں فرمایا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو بس تم کعبہ کو پہنچو گے اور طواف کرو گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا: ابوبکر! یہ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ضرور ہیں۔ میں نے کہا کیا ہم لوگ حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ بو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ضرور ہیں کیوں نہیں، میں نے کہا: تو ہم اپنے دین میں ذلت پیدانہ ہونے دیں گے ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے: کہ اے شخص وہ ضرور اللہ کے رسول ہیں اپنے رب کی نافرمانی نہیں کریں گے وہی ان کا مددگار ہے ان کے حکم کے موافق عمل کر اللہ کی قسم وہ حق پر ہیں عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا وہ ہم سے بیان نہیں کیا کرتے تھے کہ عنقریب ہم خانہ کعبہ پہنچ کر طواف کریں گے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیشک انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اسی سال تم کعبہ میں پہنچو گے میں نے کہا: نہیں ابوبکر بولے: تو تم کعبہ کو پہنچ کر ضرور اس کا طواف کرو گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس قصور (تعمیل حکم میں توقف) کے تدارک کے لئے میں نے کئی نیک عمل کئے راوی کا بیان ہے کہ جب صلح نامہ مکمل ہو گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے فرمایا اٹھ کر جانور ذبح کرو اور سر منڈاؤ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے کوئی شخص نہ اٹھا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا لیکن پھر بھی کوئی نہ اٹھا جب کوئی نہ اٹھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس اندر تشریف لے گئے اور لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو معاملہ کیا تھا اس کا تذکر ہ فرمایا ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! بہتر معلوم ہوتا ہے کہ آپ چپکے سے اٹھ کر بغیر کسی سے سے کچھ کہے ہوئے جا کر خود قربانی کریں اور حجام کو بلاکر سر منڈا دیں، جب مشورہ کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور بغیر کسی سے کچھ کہے ہوئے جاکر قربانی کی اور حجام کو بلاکر سر منڈایا لوگوں نے جو یہ دیکھا تو خود اٹھ کر قربانیاں کیں اور باہم ایک دوسرے کاسر مونڈنے لگے اور ہجوم کی وجہ سے قریب تھا کہ بعض بعض کو مار ڈالیں۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کے پاس کچھ عورتیں آئیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «يا ايها الذين آمنوا اذاجاء كم المؤمنات مهاجرات» الخ اس آیت کے مطابق اس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو عورتوں کو طلاق دی جو اس وقت حالت شرک میں تھیں جن میں سے ایک سے تو معاویہ بن ابی سفیان نے اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے نکاح کر لیا ان امور سے فراغت پاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کو لوٹ آئے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد ایک قریشی ابوبصیر نامی مسلمان ہو کر خدمت والا میں حاضر ہوئے کافروں نے ان کی تلاش میں دو آدمی بھیجے دونوں نے آکر عرض کیا اپنا معاہدہ پور اکیجئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو دونوں کے حوالہ کر دیا اور وہ ان کو ہمراہ لے کر نکلے ذوالحلیفہ میں پہنچے تو اتر کر کھجوریں کھانے لگے ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک شخص سے کہا: اللہ کی قسم میرے خیال میں یہ تلوار تو بہت ہی اچھی ہے دوسرے نے اس کو نیام سے کھینچ کر کہا: ہاں بہت عمدہ ہے میں نے بارہا اس کا تجر بہ کیا ہے ابوبصیر بولے: ذرا مجھے دکھانا اس نے ابوبصیر کے ہاتھ میں دے دی، ابوبصیر نے اس کو تلوار سے قتل کر دیا، دوسرا بھاگ کر مدینہ پہنچا اور بھاگ کر مسجد میں داخل ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا یہ ضرور کہیں ڈر گیا ہے وہ خدمت میں پہنچا اور عرض کیا میراساتھی مارا گیا اور میں بھی مارے جانے کے قریب ہوں اتنے میں ابوبصیر بھی آگئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! اللہ کی قسم آپ نے اپناعہد پور ا کر دیا، آپ نے مجھے ان کے سپرد کر دیا تھا لیکن اللہ نے مجھے ان سے نجات دی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کم بخت لڑائی کی آگ بھڑکائے گا کاش اس کا کوئی مددگار ہوتا (اور ابوبصیر کو پکڑ کر مکہ لے جاتا) ابوبصیر نے جب دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کافروں کے حوالہ کر دیں گے تو وہ وہاں سے نکل کر ساحل کی طرف چل دئیے ادھر ابوجندل بھی مکہ سے بھاگ کر ابوبصیر سے جاکر مل گئے پھر یہ حال ہوا کہ جو شخص قریش کے پاس سے مسلمان ہو کر بھاگتا وہ ابوبصیر سے مل جاتا یہاں تک کہ ان کا تقریباًً ستر آدمیوں کا ایک جتھا ہو گیا، اب تو یہ صورت ہو گئی کہ قریش کا جو قافلہ شام کو جاتا اور ان کی خبر ہو جاتی تو راستے میں روک کر قافلہ والوں کو قتل کر دیتے اور مال لوٹ لیتے مجبور اً قریش نے کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور اللہ اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا کہ کسی طرح ابوبصیر اور اس کے ہمراہیوں کو مدینہ میں بلالیں اگر ابوبصیر وغیرہ مدینہ آ جائیں گے تو پھر ہم میں سے جو بھی آپ کے پاس مسلمان ہو کر جائے گا وہ امن میں ہے (ہم اس کو واپس نہ لیں گے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر وغیرہ سب لوگوں کو مدینہ بلالیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وھوالذی کف ایدیہم عنکم وایدیکم عنہم الی قولہ حمیۃ الجاہلیۃ حمیت جاہلیت کے یہ معنی ہیں کہ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار نہیں کیا اور بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا گوارا نہ کیا اور مسلمانوں کو خانہ کعبہ سے روک دیا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے معمولی فرق کے ساتھ بھی مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے مدینہ پہنچنے کے بعد ایک قریشی ابوبصیر نامی مسلمان ہو کر خدمت والا میں حاضر ہوئے کافروں نے ان کی تلاش میں دو آدمی بھیجے دونوں نے آکر عرض کیا اپنا معاہدہ پور اکیجئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو دونوں کے حوالہ کر دیا اور وہ ان کو ہمراہ لے کر نکلے ذوالحلیفہ میں پہنچے تو اتر کر کھجوریں کھانے لگے ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک شخص سے کہا: اللہ کی قسم میرے خیال میں یہ تلوار تو بہت ہی اچھی ہے دوسرے نے اس کو نیام سے کھینچ کر کہا: ہاں بہت عمدہ ہے میں نے بارہا اس کا تجر بہ کیا ہے ابوبصیر بولے: ذرا مجھے دکھانا اس ابوبصیر کے ہاتھ میں دے دی، ابوبصیر نے اس کو تلوار سے قتل کر دیا، دوسرا بھاگ کر مدینہ پہنچا اور بھاگ کر مسجد میں داخل ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا یہ ضرور کہیں ڈر گیا ہے۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا: مجبور اً قریش نے کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور اللہ اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا کہ کسی طرح ابوبصیر اور اس کے ہمراہیوں کو مدینہ میں بلالیں اگر ابوبصیر وغیرہ مدینہ آ جائیں گے تو پھر ہم میں سے جو بھی آپ کے پاس مسلمان ہو کر جائے گا وہ امن میں ہے (ہم اس کو واپس نہ لیں گے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر وغیرہ سب لوگوں کو مدینہ بلالیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وهوالذي كف ايديهم عنكم وايديكم عنهم» الی قولہ «حمية الجاهلية» حمیت جاہلیت کے یہ معنی ہیں کہ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار نہیں کیا اور بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا گوارا نہ کیا اور مسلمانوں کو خانہ کعبہ سے روک دیا۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18928]