ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آدم اور موسیٰ ؑ نے اپنے رب کے ہاں مناظرہ و مباحشہ کیا، تو آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب رہے، موسیٰ ؑ نے فرمایا: آپ آدم ؑ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے تخلیق فرمایا، اس میں اپنی روح پھونکی، اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا، آپ کو اپنی جنت میں بسایا پھر آپ نے اپنی خطا سے لوگوں کو زمین پر اتارا، آدم ؑ نے فرمایا: آپ موسیٰ ؑ ہیں جنہیں اللہ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام کے لیے منتخب فرمایا، آپ کو تختیاں عطا کیں جن میں ہر چیز کا بیان ہے، آپ کو کسی واسطے کے بغیر سرگوشی کا شرف بخشا، آپ کے خیال میں میری تخلیق سے کتنا عرصہ قبل اللہ تعالیٰ نے تورات لکھی ہو گی؟ موسیٰ ؑ نے فرمایا: چالیس برس، آدم ؑ نے فرمایا: کیا آپ نے اس میں یہ چیز بھی پائی: آدم ؑ نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بھٹک گئے۔؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں، آدم ؑ نے فرمایا: کیا آپ مجھے ایسے عمل کرنے پر ملامت کرتے ہیں جس کا کرنا اللہ نے مجھے پیدا کرنے سے بھی چالیس برس پہلے مجھ پر لازم کر دیا تھا۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب آ گئے۔ “ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 81]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (15 / 2652) [و البخاري (6614 وغيره) مختصرًا .] »
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 81
تخریج: [صحيح مسلم 6744]
فقہ الحدیث: ➊ آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ عالم برزخ میں آسمانوں پر ہوا تھا۔ ایک دفعہ محدث ابومعاویہ محمد بن خازم الضریر (متوفی 195ھ) نے اس مناظرے والی ایک حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: آدم اور موسیٰ علیہما السلام کی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ یہ سن کر عباسی خلیفہ ہارون الرشید رحمہ اللہ سخت ناراض ہوئے اور اس شخص کو قید کر دیا۔ وہ اس شخص کے کلام کو ملحدین اور زنادقہ کا کلام سمجھتے تھے۔ دیکھئے: [كتاب المعرفة والتاريخ للامام يعقوب بن سفيان الفارسي 181/2، 182 وسنده صحيح، تاريخ بغداد 223/5 وسنده صحيح] ↰ معلوم ہوا کہ حدیث کا مذاق اڑانا ملحدین اور زنادقہ کا کام ہے۔ ➋ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا دیکھئے: [سورۃ صٓ: 75] جیسا کہ اس کی شان و جلالت کے لائق ہے۔ ↰ اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ یہاں ہاتھ سے مراد قدرت لینا سلف صالحین کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل و مردود ہے۔ امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب، غیر ثابت کتاب ”الفقه الاكبر“ میں لکھا ہوا ہے کہ: «فما ذكره الله تعالىٰ فى القران من ذكر الوجه واليد والنفس فهو له صفات بلا كيف ولا يقال ان يده قدرته او نعمته لان فيه ابطال الصفة وهو قول اهل القدر والااعتزال ولكن يده صفته بلاكيف» ”اور اس کے لئے ہاتھ، منہ اور نفس ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ «يد» سے قدرت اور نعمت مراد ہے کیونکہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے اور یہ منکرین تقدیر اور معتزلہ کا مذہب ہے، بلکہ یہ کہنا چاہئیے کہ ہاتھ اس کی مجہول الکیفیت صفت ہے۔“[الفقه الاكبر مع شرح ملا على قاري ص 36، 37 البيان الازهر، اردو ترجمه صوفي عبدالحميد سواتي ديوبندي ص 32] مجہول الکیفیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے۔ تنبیہ: یہ حوالہ اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ حنفی و غیر حنفی علماء کا ایک گروہ اس کتاب کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تصنیف مانتا ہے۔ دیکھئے: [مقدمة البيان الازهر از قلم محمد سرفراز خان صفدر ديوبندي ص16 تا 23] ◈ سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں: ”غرضیکہ فقہ اکبر سیدنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ ہی کی تصنیف ہے «لا ريب فيه»“[مقدمة البيان الازهر ص23] اس دیوبندی «لا ريب فيه» کتاب کا راوی ابومطیع الحکم بن عبداللہ البلخی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔ اس کے بارے میں: ◈ امام اہل سنت امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: «لاينبغي ان يروي عنه۔۔ شئي» ”اس سے کوئی چیز بھی روایت نہیں کرنی چاہیے۔“[كتاب العلل 285/2 ت 1864] ◈ اسماء الرجال کے جلیل القدر امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: «وأبومطيع الخراساني ليس بشيء» ”اور ابومطیع الخراسانی کچھ چیز نہیں ہے۔“[تاريخ ابن معين رواية الدوري: 4760] ↰ ان کے علاوہ دوسرے محدثین مثلاً امام نسائی، ابوحاتم الرازی اور حافظ ابن حبان وغیرہم نے اس پر جرح کی ہے۔ متاخرین میں سے حافظ ذہبی ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: «فهٰذا وفعه أبو مطيع عليٰ حماد» ”پس اس کو ابومطیع نے حماد (بن سلمہ) پر گھڑا ہے۔“[ميزان الاعتدال 42/3] ↰ معلوم ہوا کہ حافظ ذہبی کے نزدیک ابومطیع مذکور وضاع (جھوٹا، حدیثیں گھڑنے والا) تھا۔ اس جرح کے باوجود بعض الناس کا ”الفقہ الأکبر“ نامی رسالے کے بارے میں «لاريب فيه» کہنا انتہائی عجیب و غریبب ہے۔ ➌ تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے۔ ➍ جو لوگ کہتے ہیں کہ ”ابھی تک جنت پیدا نہیں ہوئی“ ان کا قول باطل و مردود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رکھا تھا۔ اہل سنت کے نزدیک جنت اور جہنم دونوں پیدا شدہ ہیں اور دونوں ہمیشہ رہیں گی اور یہی عقیدا حق ہے۔ ➎ غلطی اور گناہ کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں: اول: جو غلطی اور گناہ کرنے کے بعد سچے دل سے توبہ کرتے ہیں اور سخت پشیمان و نادم ہوتے ہں اور آئندہ اصلاح کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ دوم: جو غلطی اور گناہ کرنے کے بعد بھی اسی پر ڈٹے رہتے ہیں، توبہ نہیں کرتے اور نادم و پشیمان بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ اول الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز ہے اور ثانی الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئیے: [شفاء العليل لا بن القيم ص35، 36] و شرح حدیث جبریل [عربي ص 65-67، اردو ص 104تا 107] جو شخص گناہ اور کفر کرنے کے بعد توبہ نہیں کرتا اور پھر تقدیر سے استدلال کرتا ہے تو یہ طریقہ مشرکین و کفار کا ہے۔ دیکھئے: [سورة الانعام آيت 148] اور [سورة النحل آيت: 35] ➏ صحیح مسلم والی یہ حدیث بخاری میں بھی مختصراً موجود ہے۔ [ح 3409، 4736، 7515] ➐ بحث و مباحثہ میں فریق مخالف کے خلاف وہ دلیل پیش کرنا جسے وہ صحیح و برحق تسلیم کرتا ہے، بالکل صحیح ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6744
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدم اور موسیٰ ؑ کا اپنے رب کے حضور مباحثہ ہوا تو آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب آگئے، موسی ؑ نے کہا، آپ وہ آدم ؑ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور تجھ میں اپنی روح پھونکی اور تجھے اپنے فرشتوں سے سجدہ کروایا اور تجھے اپنی جنت میں آباد کیا، پھر تونے اپنی چوک کی پاداش میں لوگوں کو زمین میں اتروادیا۔ چنانچہ آدم ؑ نے جواب دیا،آپ وہ موسیٰ ؑ ہیں جسے اللہ نے اپنی رسالت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6744]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ ﴿١٢١﴾(سورۃ طہ، آیت نمبر 121) اللہ کے نبی کی شان اور مرتبہ چونکہ بہت بلندوبالا ہوتا ہے، اس لیے اس کے غیر شعوری اقدام کو بھی عصیان سے تعبیر کر دیا جاتا ہے، حالانکہ وہ اقدام لوگوں کے اعتبار سے عصیان نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا ﴿١١٥﴾(سورة طه: 115) اللہ کی ہدایات کو بھول گئے، وہ ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے، اس لیے وہ مضبوط عزم کے ساتھ ان پر جم نہ سکے اور ظاہر ہے بھول چوک قابل مواخذہ نہیں ہے، لیکن اس بھول کا یہ نتیجہ نکلا، وہ ناکام اور نامراد ہو گئے، جنت کی نعمتوں سے محروم ہو گئے اور جس مقصد کے لیے یہ کام کیا تھا اور شیطان نے جن ترغیبات کے ذریعہ، انہیں اللہ کی تاکید و ہدایت سے غافل کیا تھا اور جن ترغیبات سے اس کے دام فریب میں پھنس گئے تھے، ان میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا، کیونکہ غویٰ کا معنی ہے، ضل، خاب، مقصد سے بھٹک گئے اور اس کے حاصل کرنے سے ناکام و نامراد ہو گئے اور میری پیدائش سے چالیس سال پہلے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ واقعہ توراۃ میں میری تخلیق سے چالیس سال پہلے لکھ دیا، وگرنہ اللہ کا علم تو ازلی ہے، اس نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے، اپنے ازلی علم کے مطابق سب کچھ لوح محفوظ میں لکھ دیا تھا، جیسا کہ آگے حدیث آ رہی ہے۔