سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا: میرے دل میں کچھ ایسا وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے بیان کرنے سے کوئلہ بن جانا مجھے زیادہ پسند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا شکر ہے جس نے اس معاملے کو وسوسہ میں بدل دیا۔ “ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 73]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أبو داود (5112) [والنسائي في الکبري (10503) و صححه ابن حبان (الموارد: 46) ] »
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 73
تخریج: [سنن ابي داود 5112]
تحقیق الحدیث: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اسے ابوداود کے علاوہ أحمد بن حنبل [1؍235 ح 2097] عبد بن حمید [المنتخب: 701] نسائی [الكبريٰ: 10504، عمل اليوم والليلة: 668] طحاوی [معاني الآثار 2؍252] ابن حبان [الاحسان: 147] بیہقی [شعب الايمان: 341، 342] اور ابن مندہ [الايمان: 345] نے بھی روایت کیا ہے۔
فقہ الحدیث: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحیح العقیدہ اہل حق کے دلوں میں بھی شیطان مسلسل وسوسے ڈالنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ ➋ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایمان کے اعلیٰ ترین درجوں پر فائز تھے۔ وہ شیطانی وسوسوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ ➌ «حممة» جلے ہوئے کوئلے کو کہتے ہیں۔ ➍ اللہ کے فضل وکرم پر الحمدللہ کہنا چاہئے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5112
´وسوسہ دور کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کے دل میں ایسا وسوسہ پیدا ہوتا ہے، کہ اس کو بیان کرنے سے راکھ ہو جانا یا جل کر کوئلہ ہو جانا بہتر معلوم ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے مکر کو وسوسہ بنا دیا (اور وسوسہ مومن کو نقصان نہیں پہنچاتا)۔ ابن قدامہ نے اپنی روایت میں «رد كيده» کی جگہ «رد أمره» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5112]
فوائد ومسائل: دل میں آنے والے خیالات عزم سے پہلے پہلے ھواجس اور خواطر یعنی وساوس کی حد تک ہوں تو ان پر کوئی مواخذہ نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5112