تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند حسن
(لذاتہ) ہے۔
◈ اسے طبرانی نے بھی المعجم الکبیر میں
«يحييٰ بن الحارث عن القاسم عن أبى أمامة رضي الله عنه» کی سند سے روایت کیا ہے۔
[8؍208 ح7737] ➊ یحییٰ بن الحارث الذماری: ثقہ ہیں، دیکھئے:
[تقريب التهذيب 7522] ➋ قاسم بن عبدالرحمٰن ابوعبدالرحمٰن الدمشقی صاحب ابی امامہ: صدوق حسن الحدیث ہیں، جمہور محدثین نے انہیں ثقہ، صدوق وحسن الحدیث قرار دیا ہے۔
توثیق وتعریف کرنے والوں کے نام مع حوالہ درج ذیل ہیں: یحییٰ بن معین
[رواية الدوري: 5120، سوالات ابن الجنيد: 514، 571] ترمذی
[428، 2347] یعقوب بن سفیان الفارسی
[المعرفة والتاريخ 2؍456] بخاری
[سنن ترمذي: 3195، 2731 و علل الترمذي الكبير 1؍512] عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر
[التاريخ الكبير للبخاري159/7 وسنده قوي، البخاري بري من التدليس] ابن شاہین
[الثقات: 1150] العجلی
[التاريخ: 1505 قال: ”شامي تابعى ثقة يكتب حديثه وليس بالقوي“] ↰ یعنی وہ سعید بن جبیر وغیرہ کی طرح القوی نہیں ہیں بلکہ عجلی کے نزدیک حسن الحدیث ہیں۔
الحاکم
[المستدرك 83/2 صحح له] الذہبی
[الكاشف 337/2 وقال: ”صدوق“] البوصیری
[صح له فى زوائد ابن ماجه: 1597 ووثقه] المنذری
[دیکھئے مسند أحمد 261/5 ح 22603 و الموسوعة الحديثيه 586/36 ح 22248 / الترغيب والترهيب للمنذري 3؍99 ح 3046] الٰہیثمی
[ديكهئے المعجم الكبير 8؍279 ح 7913 ومجمع الزوائد 4؍33] ابن حجر العسقلانی
[تقريب التهذيب: 5470 وقال: ”صدوق يغرب كثيرا“ ثقه وصدوق عند الجمهور]،
↰ راوی پر
«يغرب كثيرا» کوئی جرح قادح نہیں ہے۔
ان کے علاوہ درج ذیل علماء سے بھی توثیق وتعریف مروی ہے:
ابوحاتم الرازی، یعقوب بن شیبہ، ابواسحاق الحربی اور ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی۔ ديكهئے:
[تهذيب الكمال، نسخه مصغره 74/6 وتهذيب التهذيب 8؍318، 319] قاسم مذکور پر درج ذیل علماء سے جرح مروی ہے: أحمد بن حنبل، الغلابی، العقیلی، ابن الجوزی، ابن حبان اور زیلعی
[نصب الرايه 1؍69] ↰ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ راوی جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہیں، لہٰذا حسن الحدیث ہیں۔
تنبیہ: حافظ ھیثمی لکھتے ہیں:
«وهو ضعيف عند الأكثرين»
اور وہ (قاسم ابوعبدالرحمٰن) جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ [مجمع الزوائد 1؍96]
↰ یہ قول تین وجہ سے غلط ہے:
① تحقیق کے بعد یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ قاسم مذکور جمہور کے نزدیک موثق ہیں۔
② حافظ ہیثمی بذات خود انہیں ثقہ کہتے ہیں:
«كما تقدم آنفا» ۔
③ عینی حنفی نے کہا:
«والقاسم بن عبدالرحمٰن وثقه الجمهور وضعفه بعضهم» [عمدة القاري 7؍146 ح1103] فقہ الحدیث ➊ ثابت ہوا کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے۔ ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے، لہٰذا مرجیہ کا عقیدہ باطل ہے۔
➋ اپنا مال و دولت صرف انہی مصارف پر خرچ کرنا چاہئے جو کتاب و سنت کے مطابق ہیں۔
➌ کتاب و سنت کے مخالف کاموں پر اپنا مال و دولت کبھی خرچ نہیں کرنا چاہئیے ورنہ ایمان میں کمی واقع ہو جائے گی۔
➍ اہل بدعت اور مجرمین سے بغض رکھنا ایمان کی نشانی ہے۔
➎ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے اللہ کے لئے محبت کرنا بڑی فضیلت والا عمل ہے۔