راوی حدیث ابوعلقمہ بیان کرتے ہیں کہ میری معلومات کے مطابق سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرفوع روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل اس امت کے لیے ہر سو سال کے آخر پر کسی ایسے شخص کو بھیجے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔ “اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 247]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أبو داود (4291) [والحاکم في المستدرک (4/ 522) و سکتا عليه، ھو والذهبي .] »
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 247
تحقیق الحدیث: اس کی سند حسن ہے۔ ➊ ہر صدی کے سر پر ایسے لوگ پیدا کئے جائیں گے جو صحیح العقیدہ پکے مسلمان اور کتاب و سنت کے جلیل القدر علماء ہوں گے، ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے دین کی تجدید یعنی مسلک حق کا پرچار اور بدعات کا رد فرمائے گا۔ یہ ایک آدمی بھی ہو سکتا ہے اور ایک جماعت بھی بلکہ ایک جماعت والی بات زیادہ راجح ہے۔ ➋ مجددین کون ہیں اور قرون سابقہ میں ان کے کیا نام تھے؟ اس بارے میں واضح کوئی دلیل نہیں، لہٰذا سکوت بہتر ہے۔ ◄ بہت سے لوگوں نے اپنے نمبر بڑھانے کے لئے اپنے اپنے پسندیدہ اشخاص کو مجددین میں شامل کر لیا ہے، حالانکہ ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جن کے عقائد کا صحیح ہونا ثابت نہیں اور نہ وہ حدیث کا علم جانتے تھے۔ اگر واقعی کوئی مجددین ہیں تو وہ صرف صحیح العقیدہ محدثین کرام ہیں، جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا دفاع کر کے اسلام کے عَلَم کو ہمیشہ سربلند رکھا اور تقلید کے پرخچے اڑا دیئے۔ رہ گئے وہ لوگ جو ”مامقلداں را جائز نیست۔۔۔“ وغیرہ طریقوں سے اندھی تقلید کی طرف دعوت دیتے رہے انہیں مجددین کی فہرست میں شامل کرنا غلط ہے۔ بعض ایسے لوگ بھی تھے جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو حنفی باور کراتے رہے اور مجددیت کا تاج بھی اپنے سروں پر رکھنے کی کوشش کی۔ یہ تو مرنے کے بعد پتا چلے گا کہ کون مجدد تھا اور کون مخرّب تھا؟ «سوف تري إذا انكشف الغبار أفرس تحت رجلك أم حمار»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4291
´صدی پوری ہونے پر مجدد کے پیدا ہونے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔“[سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4291]
فوائد ومسائل: یہ بہت بڑا انعام ہے کہ امت میں ایسے صالحین پیدا ہوئے ہیں اور آ ئیندہ بھی ہونگے جو دین کے معاملے میں ایسی خدمات سر انجام دیں گے جو انتہائی اہم اور ضروری ہونگی۔ مگر یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ خود انہیں بھی اس کا احساس ہو یا لوگوں میں ان کا تعارف ہو یا وہ خود اپنا چرچا کرتے پھریں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ ان کی خدمات ِ جلیلہ سے علمائے حق میں ان کے متعلق یہ صفت جانی جائے گی۔ ممکن ہے وہ مجاہد ہو یا حاکم یا داعی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4291