الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
4.07. کافر کے لیے عذاب قبر
حدیث نمبر: 134
‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «يُسَلط عَلَى الْكَافِرِ فِي قَبْرِهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ تِنِّينًا تنهشه وتلدغه حَتَّى تقوم السَّاعَة وَلَو أَنَّ تِنِّينًا مِنْهَا نَفَخَ -[49]- فِي الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ خَضِرًا» . رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَرَوَى التِّرْمِذِيُّ نَحْوَهُ وَقَالَ: «سَبْعُونَ بدل تِسْعَة وَتسْعُونَ»
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کافر پر، اس کی قبر میں، ننانوے اژدھا مسلط کر دیے جاتے ہیں، وہ قیام قیامت تک اسے ڈستے رہیں گے، اگر ان میں سے ایک اژدھا زمین پر پھونک مار دے تو زمین کسی قسم کا سبزہ نہ اگائے۔ اس حدیث کو دارمی اور ترمذی نے روایت کیا ہے انہوں نے ننانوے کے بجائے ستر (اژدھا) کا ذکر کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 134]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه الدارمي (1/ 331 ح 2818 وسنده حسن) والترمذي (2460 وقال: غريب) و سنده ضعيف.
انظر أنوار الصحيفة (ص 258) و حديث الدارمي يغني عنه . قلت: دراج صدوق و حديثه عن أبي الھيثم حسن لذاته .»

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   جامع الترمذيلو أكثرتم ذكر هاذم اللذات لشغلكم عما أرى فأكثروا من ذكر هاذم اللذات الموت فإنه لم يأت على القبر يوم إلا تكلم فيه فيقول أنا بيت الغربة وأنا بيت الوحدة وأنا بيت التراب وأنا بيت الدود فإذا دفن العبد المؤمن قال له القبر مرحبا وأهلا أما إن كنت لأحب من يمشي على
   مشكوة المصابيحيسلط على الكافر في قبره تسعة وتسعون تنينا تنهشه وتلدغه حتى تقوم الساعة ولو ان تنينا منها نفخ في الارض ما انبتت خضرا

مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 134 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 134  
تحقیق الحدیث:
حسن ہے۔
◈ دارمی والی سند میں دراج راوی ہیں جو صدوق حسن الحدیث ہیں، لیکن ابوالہیثم سے ان کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب: 1824، و سنن الترمذي: 2033 بتحقيقي]
◈ اور یہ روایت دراج نے ابوالہثیم سے بیان کر رکھی ہے،
لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
ترمذی والی سند میں عبیداللہ بن الولید اور عطیہ العوفی دونوں ضعیف ہے۔

تنبیہ:
دراج کی ابو الہیثم سے روایت ضعیف نہیں بلکہ حسن ہوتی ہے۔ دیکھئے: [اضواء المصابيح فى تحقيق مشكاة المصابيح ح: 222]
لہٰذا دارمی والی روایت حسن لذاتہ ہے۔ «والحمد لله عليٰ اصلاح ذلك»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 134   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2460  
´باب:۔۔۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصلی پر تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ ہنس رہے ہیں، آپ نے فرمایا: آگاہ رہو! اگر تم لوگ لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز کو یاد رکھتے تو تم اپنی ان حرکتوں سے باز رہتے، سو لذتوں کو ختم کر دینے والی موت کا ذکر کثرت سے کرو، اس لیے کہ قبر روزانہ بولتی ہے اور کہتی ہے: میں غربت کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹی کا گھر ہوں، اور میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں، پھر جب مومن بندے کو دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے مرحبا (خوش آمدید) کہتی ہے اور مبارک باد دیتی ہے اور کہتی ہے: بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیاد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2460]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عبید اللہ وصافی اور عطیہ عوفی دونوں ضعیف راوی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2460