سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مومنوں کے بچے (ان کے بارے میں کیا حکم ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے آباء کے ساتھ ہوں گے۔ “ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! عمل کے بغیر ہی، آپ نے فرمایا: ”انہوں نے جو کرنا تھا اللہ اس سے بخوبی واقف ہے۔ “ میں نے عرض کیا: تو مشرکین کے بچے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ بھی اپنے آباء کے ساتھ میں نے عرض کیا، عمل کے بغیر ہی، آپ نے فرمایا: ”انہوں نے جو کرنا تھا، اللہ اس سے بخوبی واقف تھا۔ “ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 111]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4712) [والآجري في الشريعة ص 195 ح 405] ٭ بقية: صرح بالسماع و تابعه محمد بن حرب، وللحديث طريق آخر عند أحمد (4/ 76)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 111
تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ● بقیۃ بن الولید نے سماع مسلسل کی تصریح کر دی ہے، دیکھیے: [الشريعه الاجري ص 195] اور محمد بن حرب نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔ [سنن ابي داؤد: 4712] ● مسند أحمد [ج6 ص84 ح24545] میں اس کی دوسری سند بھی ہے۔
فقہ الحدیث: ➊ اس حدیث میں بھی مسئلہ تقدیر بیان ہوا ہے۔ نیز دیکھئے: ماہنامہ الحدیث: [36 ص9] ➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان ”بلاعمل“ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک بھی عمل ایمان میں سے ہے اور اقرار و تصدیق کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے۔ ➌ کون کہاں جائے گا؟ سب اللہ جانتا ہے۔ ہر چیز اس کے علم میں ہے اور اسے ہی تقدیر کہتے ہیں۔ ➍ اگر مسئلہ معلوم نہ ہو تو اہل ذکر (علماء) سے پوچھنا چاہئے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4712
´کفار اور مشرکین کی اولاد کے انجام کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مومنوں کے بچوں کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور مشرکین کے بچے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے“ میں نے عرض یا بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے“۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4712]
فوائد ومسائل: بچوں کا کیا انجام ہوگا؟ یہ قابل غور مسئلہ ہے۔ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں، چاہے مسلمان کے گھر پیدا ہوں چاہے کا فر کے۔ (صحيح البخاري، كتاب التفسير، سورة الروم‘ باب (لاتبديل الخلق الله، حديث:٤٧٧٥) كفار اپنے بچوں کو اپنے دین کے مطابق ڈھال کر کافر بنا لیتے ہیں، اس باب کی احادیث٤٧١٤ اور٤٧١٦ سے یہ حقیقت واضح ہے۔ غیر مسلموں اور مشرکوں کے بچے سن تمیز سے پہلے فوت ہو جائیں اور ان کے والدین کا فر ہوں تو دنیا میں ان کا حکم کافروں کا ہو گا، انہیں نہ غسل دیا جائے گا نہ کفن دیا جائے گا، نہ جنازہ پڑھا جائے گا او ر نہ ہی انہیں مسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا، کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہی کافر ہیں اور آخرت میں ان کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے، صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جب مشرکوں کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ؐ نے فرمایا: (الله أعلم بما کانوا عاملین)(صحیح البخاري، القدر، باب الله أعلم بما کانوا عاملین، حدیث: 6597) اللہ تعالی ان بابت زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے؟ ان کے بارے میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن انہیں کوئی حکم دے کر ان کی آزمائش کرے گا اور اگر وہ اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت کرلیں گے تو اللہ تعالی انہیں جنت میں داخل کرے گا اور اگر وہ نافرمانی کریں گے تو پھر اللہ تعالی انہیں جہنم رسید کرے گا۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اہل فترہ (جن کے پاس انبیا کی دعوت نہ پہنچی ہوگی۔ ) کا قیامت کے دن امتحان ہو گا۔ اہل فترہ کی بابت سب سے زیادہ صحیح اور راجح قول یہی ہے، جسے شیخ الاسلام ان تیمیہ، امام بن قیم۔ فضیلہ الشیخ محمد بن صالح العثمین اور فضیلہ الشیخ عبدالعزیز عبداللہ بن باز ؒنے بھی اختیار کیا ہے، اسی طرح جو لوگ ان کے حکم میں ہوں گے مثلا مشرکوں کے بچے، ان کا بھی امتحان ہو گا کیو نکہ ارشاد باری تعالی ہے: (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا) کہ اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھجیں ہم عذاب نہیں دیا کرتے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، سنن ابوداود، کتاب الجہاد، حدیث:2521)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4712