مطر بن عکام بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ کسی بندے کے متعلق فیصلہ فرماتا ہے کہ اسے فلاں جگہ موت آ جائے تو وہ اس شخص کے لیے اس جگہ کوئی ضرورت پیدا کر دیتا ہے۔ “ اس حدیث کو احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 110]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه أحمد (5/ 227 ح 22332) والترمذي (2146 وقال: ھذا حديث حسن غريب و 2147)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 110
تخریج: [سنن ترمذي 2146]
تحقیق الحدیث: صحیح ہے۔ ◈ اسے حاکم [1؍42 ح125، 126] اور ذہبی نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ ◈ اس میں ابواسحاق السبیعی مدلس راوی ہیں، لیکن سنن الترمذی [2147] میں اس کا بعینہ اسی معنی کا صحیح شاہد بھی ہے، جس کے بارے میں امام ترمذی نے کہا: «هٰذا حديث صحيح» اس کی سند صحیح ہے۔ اور اسے ابن حبان [الموارد: 1815] حاکم [42/1] اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
فقہ الحدیث: ➊ جس آدمی کے مرنے کا تقدیر میں جو وقت اور جگہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے وہ وہاں پہنچ جاتا ہے۔ ➋ عقیدہ تقدیر برحق ہے۔ ➌ بعض نسخوں میں «عكامس» کی جگہ «عكام» لکھا ہوا ہے جبکہ صحیح «عكامس» ہے جیسا کہ مشکوٰۃ درسی نسخہ ہند ص [22] میں ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2146
´موت اسی جگہ آتی ہے جہاں مقدر ہوتی ہے۔` مطر بن عکامس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی موت کے لیے کسی زمین کا فیصلہ کر دیتا ہے تو وہاں اس کی کوئی حاجت و ضرورت پیدا کر دیتا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2146]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: چنانچہ بندہ اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے زمین کے اس حصہ کی جانب سفر کرتا ہے جہاں اللہ نے اس کی موت اس کے لیے مقدر کر رکھی ہے، پھر وہاں پہنچ کر اس کی موت ہوتی ہے، ﴿وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾(لقمان: 34)(اورکسی جان کو اس بات کا علم نہیں ہوتاکہ اُس کی موت کسی سرزمین میں آئے گی) اسی طرف اشارہ ہے کہ زمین کے کس حصہ میں موت آئے گی کسی کو کچھ خبر نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2146