473/605 عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الكريم ابن الكريم ابن الكريم ابن الكريم؛ يوسف بن يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم؛ خليل الرحمن تبارك وتعالى". قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو لبثتُ في السجن ما لبث يوسف، ثم جاءني الداعي لأجبت؛ إذ جاءه الرسول فقال:?ارجع إلى ربك فاسئله ما بال النسوة التي قطعن أيديهن? [يوسف: 50]. ورحمة الله على لوط؛ إن كان ليأوي إلى ركن شديد، إذ قال لقومه:? لو أن لي بكم قوة أو ءاوي إلى ركن شديد?[هود: 80]. فما بعث الله بعده من نبي إلا في ثروة من قومه". قال محمد بن عمر الراوي لهذا الحديث: الثروة: الكثرة والمنعة.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک معزز کے بیٹے معزز، ان کے بیٹے معزز، ان کے بیٹے معزز: یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم تھے (وہ ابراہیم) جو خلیل الرحمن تبارک وتعالیٰ تھے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں جیل میں یوسف جتنی مدت قید رہتا پھر مجھے بلانے والا آ جاتا تو میں اس کی بات کو قبول کر کے چلا جاتا۔ جب ان کے پاس پیامبر آیا تو انہوں نے کہا: «ارجع إلى ربك فاسئله ما بال النسوة التى قطعن أيديهن»”اپنے مالک کے پاس واپس جا، پھر اس سے پوچھ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے؟“ اور اللہ لوط پر رحمت کرے، یقیناً وہ ایک مضبوط سہارے کی طرف جگہ پکڑتے تھے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا: «لو أن لي بكم قوة أو ءاوي إلى ركن شديد»”کاش! واقعی میرے پاس تمہارے مقابلہ کی کچھ طاقت ہوتی، یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا“، تو اللہ نے ان کے بعد کوئی نبی نہیں بھیجا مگر اس کی (قوم کی) کثرت تعداد میں۔ محمد بن عمر اس حدیث کے راوی نے کہا: ثروت سے مراد ہے کثرت تعداد اور محافظ لوگ۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 473]