فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 671
´اذان دینے کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا ۱؎ پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے کہ اذان (کی آواز) نہ سنے، پھر جب اذان ہو چکتی ہے تو واپس لوٹ آتا ہے یہاں تک کہ جب نماز کے لیے اقامت کہی جاتی ہے، تو (پھر) پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، اور جب اقامت ہو چکتی ہے تو (پھر) آ جاتا ہے یہاں تک کہ آدمی اور اس کے نفس کے درمیان وسوسے ڈالتا ہے، کہتا ہے (کہ) فلاں چیز یاد کر فلاں چیز یاد کر، پہلے یاد نہ تھیں یہاں تک کہ آدمی کا حال یہ ہو جاتا ہے کہ وہ جان نہیں پاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔“ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 671]
671 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ”ہوا چھوڑتا (پادتا)۔“ ظاہر ہے کہ اس سے حقیقتاً ہوا چھوڑنا (پادنا) ہی مراد ہے۔ اگر شیطان کھا پی سکتا ہے تو باقی لوازم سے انکار کیوں؟ بعض لوگوں نے اس سے نفرت مراد لی ہے۔ لیکن یہ تاویل بلادلیل ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ ”وسوسے ڈالتا ہے۔“ یعنی اس کی توجہ نماز کی بجائے ادھر ادھر مبذول کراتا ہے۔ لعنه اللہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 671
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1254
´(نماز شک ہونے کی صورت میں) تحری (صحیح بات جاننے کی کوشش) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، پھر جب اقامت کہہ دی جاتی ہے تو وہ واپس لوٹ آتا ہے یہاں تک کہ آدمی کے دل میں گھس کر وسوسے ڈالتا ہے، یہاں تک کہ وہ جان نہیں پاتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی، لہٰذا جب تم میں سے کوئی اس قسم کی صورت حال دیکھے تو وہ دو سجدے کرے۔“ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1254]
1254۔ اردو حاشیہ:
➊ شیطان کا گوز مارتا اذان کا اثر بھی ہو سکتا ہے (جیسے گدھے پر زیادہ بوجھ لدا ہو تو وہ گوز مارتا ہے) یا اس لیے کہ اذان نہ سن سکے (گوز کی آواز کی وجہ سے) یا یہ کنایہ ہے کہ اذان شیطان کے لیے بہت پریشان کن ہے۔
➋ دیگر روایات میں اذان کے بعد واپسی اور پھر اقامت کے موقع پر بھاگنے کا بھی ذکر ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 608، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 287] یہ روایت مختصر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1254
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 856
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”شیطان جب نماز کے لیے پکار سنتا ہے تو زور سے ہوا خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے، تاکہ مؤذن کی آواز نہ سنائی دے، جب مؤذن چپ ہو جاتا ہے تو واپس آ جاتا ہے اور (نمازیوں کے دلوں میں) وسوسہ پیدا کرتا ہے۔ تو جب تکبیر سنتا ہے تو پھر بھاگتا ہے تاکہ اس کی آواز سنائی نہ دے، جب وہ خاموش ہو جاتا ہے واپس آ جاتا ہے، اور لوگوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:856]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَحَالَ:
بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔
(2)
ضُرَاطٌ:
گوز،
بلند آواز سے دبر سے ہوا خارج کرنا ہے۔
فوائد ومسائل:
اٰذان چونکہ دین حق کا خلاصہ اور نچوڑ ہے،
اس لیے اس کو آپﷺ نے دعوت نامہ (مکمل دعوت)
کا نام دیا ہے اور شیطان کو دین حق سے چڑ اور عناد ہے،
اس لیے اس کا سننا ناگواری کا باعث ہے،
اس لیے وہ تکبیر اور اذان دونوں کے سننے کا روادار نہیں اور اس کے لیے ان کا سننا انتہائی پریشانی اور اضطراب کا باعث ہے،
اس پریشانی کے عالم میں بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور دور تک چلا جاتاہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 856
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 857
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب مؤذن اذان دیتا ہے، شیطان پیٹھ پھیر کر سر پٹ دوڑتا ہے یا گوز مارتا ہوا جاتا ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:857]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
حُصَاص:
گوز مارنا،
یا تیز بھاگنا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 857
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 859
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے، شیطان گوز مارتا ہوا، پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے، تاکہ اذان سنائی نہ دے تو جب اذان پوری ہو جاتی ہے، آ جاتا ہے، حتیٰ کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے بھاگ جاتا ہے، پھر جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے، پھر آ جاتا ہے، حتیٰ کہ انسان اور اس کے دل کے درمیان گزرتا ہے اور اسے کہتا ہے فلاں چیز یاد کر، فلاں چیز یاد کر، حالانکہ وہ چیزیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:859]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ثُوِّبَ:
تَثوِيب کا مقصد اقامت ہے،
کیونکہ ثاب کا معنی لوٹنا ہوتا ہے۔
(2)
مؤذن:
اذان کے بعد دوبارہ نماز کی طرف بلاتا ہے۔
اس لیے تکبیر کو تثویب کہتے ہیں۔
(3)
يخطر:
اگر طا پر زیر پڑھیں تو معنی ہو گا،
وسوسہ ڈالنا،
اگر طا پر پیش پڑھیں تو معنی ہو گا،
گزرنا۔
یعنی انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے۔
تاکہ اس کو اصل مقصود سے،
دوسری چیز میں مشغول کر دے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 859
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 608
608. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے۔ جب اذان پوری ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے۔ پھر جب نماز کے لیے اقامت کہی جاتی ہے تو دوبارہ پیٹھ دے کر بھاگ نکلتا ہے۔ اور جب اقامت ختم ہو جاتی ہے تو پھر سامنے آتا ہے تاکہ نمازی اور اس کے دل میں وسوسہ ڈالے۔ اور کہتا ہے: یہ بات یاد کر، وہ بات یاد کر، یعنی وہ باتیں جو نمازی بھول گیا تھا (انہیں یاد دلاتا ہے) حتی کہ نمازی بھول جاتا ہے کہ اس نے کس قدر نماز پڑھی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:608]
حدیث حاشیہ:
شیطان اذان کی آواز سن کر اس لیے بھاگتاہے کہ اسے آدم کو سجدہ نہ کرنے کا قصہ یاد آجاتاہے لہٰذا وہ اذان نہیں سننا چاہتا۔
بعض نے کہا اس لیے کہ اذان کی گواہی آخرت میں نہ دینی پڑے۔
چونکہ جہاں اذان کی آواز جاتی ہے وہ سب گواہ بنتے ہیں۔
اس ڈر سے وہ بھاگ جاتاہے کہ جان بچی لاکھوں پائے۔
کتنے ہی انسان نماشیطان بھی ہیں جو اذان کی آواز سن کر سوجاتے ہیں یااپنے دنیاوی کاروبار سے مشغول ہوجاتے ہیں اور نماز کے لیے مسجد میں حاضر نہیں ہوتے۔
یہ لوگ بھی شیطان مردود سے کم نہیں ہیں۔
اللہ ان کو ہدایت سے نوازے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 608
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1231
1231. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے اور (اتنی دور چلا جاتا ہے کہ) اذان کی آواز نہیں سن پاتا۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے اور جب تکبیر کہی جاتی ہے تو پھر بھاگتا ہے۔ جب تکبیر پوری ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ کر نمازی اور اس کے دل میں وسوسہ اندازی کرتا ہے اور کہتا ہے: فلاں فلاں چیز یاد کرو، جو اسے پہلے یاد نہیں ہوتی، حتی کہ نماز ایسا ہو جاتا ہے کہ نہیں جانتا اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، اس لیے اگر تم میں سے کسی کو معلوم نہ رہے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین یا چار؟ تو بیٹھے بیٹھے دو سہو کے سجدے کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1231]
حدیث حاشیہ:
یعنی جس کو اس قدر بے انداز وسوسے پڑتے ہوں اس کے لیے صرف سہو کے دو سجدے کافی ہیں۔
حسن بصری اور سلف کا ایک گروہ اسی طرف گئے ہیں کہ اس حدیث سے کثیر الوساوس آدمی مراد ہے اورامام بخاری ؒ کے باب سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
(للعلامة الغزنوي)
اور امام مالک ؒ، شافعی ؒ اور امام احمد ؒ اس حدیث کو مسلم وغیرہ کی حدیث پر حمل کرتے ہیں جو ابو سعید ؓ سے مروی ہے کہ اگر شک دو یا تین میں ہے تو دو سمجھے اور اگر تین یاچار میں ہے تو تین سمجھے۔
بقیہ کو پڑھ کرسہو کے دو سجدے سلام سے پہلے دے دے۔
(نصر الباري، ج: 1ص: 447)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1231
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1222
1222. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اسے اذان کی آواز نہ سنائی دے۔ اور جب مؤذن خاموش ہو جاتا ہے تو وہ واپس آ جاتا ہے۔ پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو بھاگ نکلتا ہے۔ جب مؤذن تکبیر سے خاموش ہو جاتا ہے تو واپس آ جاتا ہے اور نمازی سے کہتا رہتا ہے کہ فلاں چیز یاد کرو، فلاں چیز یاد کرو جو اسے یاد نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔“ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: جب نمازی ایسی حالت سے دوچار ہو تو وہ بیٹھ کر دو سجدے (بطور سہو) کرے۔ اسے ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1222]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ نماز میں شیطان وساوس کے لیے پوری کوشش کرتا ہے۔
اس لیے اس بارے میں انسان مجبور ہے۔
پس جب نماز کے اندر شیطانی وساوس کی وجہ سے یہ نہ معلوم رہے کہ کتنی رکعتیں پڑھ چکا ہوں تو یقین پر بنا رکھے، اگر اس کے فہم میں نماز پوری نہ ہو تو پوری کر کے سہو کے دو سجدے کر لے۔
(قسطلاني)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1222
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3285
3285. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جب نمازکےلیے اذان کہی جاتی ہے توشیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ جب اذان پوری ہوجائے تو واپس آجاتا ہے۔ پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر دم دبا کر بھاگ نکلتا ہے۔ جب وہ ختم ہوجاتی ہے تو پھر واپس آجاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے اور خیالات ڈالنے شروع کردیتا ہے اور کہتا ہے: فلاں کام یاد کر، فلاں چیز یاد کرو حتیٰ کہ نمازی کو یاد نہیں رہتا کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، تو جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ اسے تین یار چار رکعتیں پڑھنے کا پتہ نہ چلے تو سہو کے دو سجدے کرلے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3285]
حدیث حاشیہ:
جیسا شیطان ہے ویسا ہی اس کا گوز مارنا بھی ہے۔
اذان سے نفرت کرکے وہ بھاگتا ہے اور اس زور سے بھاگتا ہے کہ اس کا گوز نکلنے لگتا ہے۔
آمنا و صدقنا ماقال النبي صلی اللہ علیه وسلم بہت سے انسان نما شیطان بھی ہیں جو اذان جیسی پیاری آواز سے نفرت کرتے ہیں، اس کے روکنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔
ایسے لوگ بظاہر انسان در حقیقت ذریات شیطان ہیں۔
قاتلهم اللہ أنی یؤفکون
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3285
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:608
608. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے۔ جب اذان پوری ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے۔ پھر جب نماز کے لیے اقامت کہی جاتی ہے تو دوبارہ پیٹھ دے کر بھاگ نکلتا ہے۔ اور جب اقامت ختم ہو جاتی ہے تو پھر سامنے آتا ہے تاکہ نمازی اور اس کے دل میں وسوسہ ڈالے۔ اور کہتا ہے: یہ بات یاد کر، وہ بات یاد کر، یعنی وہ باتیں جو نمازی بھول گیا تھا (انہیں یاد دلاتا ہے) حتی کہ نمازی بھول جاتا ہے کہ اس نے کس قدر نماز پڑھی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:608]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں اذان کے بجائے تاذین کے الفاظ استعمال کیے ہیں تاکہ الفاظ حدیث سے مطابقت ہو، کیونکہ حدیث میں تاذین کا لفظ آیا ہے۔
اگرچہ تاذین کا لفظ مؤذن کے قول وفعل اور اس کی ہیئت وغیرہ سب کو شامل ہے، لیکن اس مقام پر صرف اذان کے الفاظ مراد ہیں، چنانچہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے:
” تاکہ وہ اس کی آواز نہ سن سکے۔
“ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 856 (389) (2)
عنوان سے اس حدیث کے مطابقت بایں طور ہے کہ یہ صرف اذان کی فضیلت ہے جس کی آواز سن کر شیطان بھاگنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
اگرچہ اذان کی فضیلت میں متعدد احادیث وارد ہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے صرف مذکورہ حدیث کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ اذان سے متعلق دیگر فضائل کو متعدد نیک اعمال سے حاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ شیطان کے بھاگنے کی خصوصیت صرف اذان سے وابستہ ہے۔
والله أعلم. (3)
شیطان سے ہوا کا خارج ہونا بعید از امکان نہیں، کیونکہ اس کابھی ایک جسم ہے جسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے گوز مارنے کی کئی ایک وجوہات ہیں:
٭اذان کی وجہ سے اس پر بوجھ پڑتا ہے، وہ اس دباؤ کی وجہ سے ہوا خارج کرتا ہے۔
٭وہ اس نازیبا حرکت سے اذان کے ساتھ مذاق کرتا ہے، جیسا کہ غیر مذہب لوگوں کا شیوہ ہو۔
٭وہ دانستہ یہ کام کرتا ہے تاکہ اذان کی آواز اس کے کانوں میں نہ آسکے، کیونکہ جب قریب شور برپا ہوتو دور کی آواز سنائی نہیں دیتی۔
(فتح الباري: 113/2) (4)
اذان سنتے ہی شیطان اس قسم کے حالات سے دوچار ہوتا ہے جیسے کسی آدمی کو انتہائی پریشان کن اور دہشت ناک معاملہ پیش آگیا ہو۔
ایسے شدید حالات میں خوف کی وجہ سے انسان کے جوڑ ڈھیلے پڑجاتے ہیں اور اسے اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رہتا۔
اس بے بسی کے عالم میں اس کا پیشاب اور ہوا از خود خارج ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
شیطان لعین بھی جب اذان سنتا ہے تو اس کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے، یعنی وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ وہ مقام روحاء تک بھاگتا چلا جاتا ہے تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے اور مقام روحاء مدینہ طیبہ سے 36 میل کے فاصلے پر ہے۔
(فتح الباري: 113/2)
(5)
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان، انسان کو دوران نماز میں ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو اسے بھول چکی ہوتی ہیں، کیونکہ بھولی بسری باتوں کی طرف انسان زیادہ متوجہ ہوتا ہے، اس لیے بھولی باتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وگرنہ شیطان کا کام نمازی کے خشوع خضوع کو برباد کرنا ہے، اس کے لیے وہ ہر چارہ کرتا ہے۔
وہ نمازی کو مشغول کرنے کےلیے یاد باتوں کا وسوسہ بھی ڈالتا ہے اور اسے سوچ بچار میں مبتلا کرنے کےلیے بھولی ہوئی باتیں بھی یاد دلاتا ہے۔
ان باتوں کا تعلق دنیوی معاملات سے بھی ہوسکتا ہے اور دینی امور سے بھی حتی کہ قرآنی آیات کے معانی اور اس کے اسرارورموز کے ذریعے سے بھی غافل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
(6)
تثويب کے لغوی معنی لوٹنا ہیں۔
شریعت کی اصطلاح میں اس کے کئی ایک معانی ہیں، مثلا:
اذان کے بعد مؤذن کا لوگوں کو نماز کے لیے بلانا بھی تثويب کہلاتا ہے۔
شریعت نے اس فعل کو ناپسند کیا ہے۔
اسی طرح صبح کی نماز میں ''الصلاة خير من النوم'' کہنے کو بھی تثويب کہا جاتا ہے، لیکن اس حدیث میں تثويب سے مراد نماز کی اقامت ہے۔
چونکہ امامت کہتے وقت مؤذن دوبارہ اذان کے الفاظ کی طرف لوٹتا ہے اور انھیں دہراتا ہے، اس لیے اقامت کو تثويب کہا گیا ہے۔
صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ جب شیطان اقامت سنتا ہے تو دوبارہ بھاگ جاتا ہے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 856(389) (7)
اس حدیث سے بظاہر اذان کی فضیلت نماز سے زیادہ معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اذان سے شیطان بھاگ جاتا ہے، جبکہ دوران نماز میں وہ واپس آکر وسوسہ اندازی شروع کردیتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے نماز ہی کو فضیلت اور برتری حاصل ہے، کیونکہ ہر چیز کے خواص الگ الگ ہوتے ہیں۔
بسا اوقات ایک کم قیمت چیز کے وہ فوائد ہوتے ہیں جو اس سے بہتر چیز میں نہیں پائے جاتے، مثلا:
سنامکی کی خاصیت ہے کہ وہ قبض کشا ہے، حالانکہ خمیرہ مروارید سے وہ بہت کم درجے کی ہے، علاوہ ازیں خمیرہ مروارید قبض کشا بھی نہیں ہوتا۔
اذان میں شہادتین کا اعلان ہوتا ہے اور احادیث کے مطابق مؤذن جب اذان دیتا ہے تو حد آواز تک ہر چیز اس کے ایمان وعمل کی گواہی دے گی جبکہ شیطان کو یہ بات گوارا نہیں کہ اس کے عمل و ایمان کی کوئی چیز گواہی دے، اس لیے وہ اذان سننے کی تاب نہیں لاسکتا۔
نماز میں یہ خاصہ نہیں ہے، اگرچہ وہ افضل عبادت ہے۔
نماز میں مناجات اور سرگوشی ہوتی ہے، اس لیے نماز شروع ہوتے ہی شیطان لوٹ آتا ہے اور طرح طرح کی وسوسہ اندازی شروع کردیتا ہے۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 608
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1222
1222. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اسے اذان کی آواز نہ سنائی دے۔ اور جب مؤذن خاموش ہو جاتا ہے تو وہ واپس آ جاتا ہے۔ پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو بھاگ نکلتا ہے۔ جب مؤذن تکبیر سے خاموش ہو جاتا ہے تو واپس آ جاتا ہے اور نمازی سے کہتا رہتا ہے کہ فلاں چیز یاد کرو، فلاں چیز یاد کرو جو اسے یاد نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔“ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: جب نمازی ایسی حالت سے دوچار ہو تو وہ بیٹھ کر دو سجدے (بطور سہو) کرے۔ اسے ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1222]
حدیث حاشیہ:
اگر کوئی نمازی شیطانی وساوس کی بنا پر اس قسم کی سوچ و بچار میں پڑ جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی بشرطیکہ نماز کا کوئی رکن ترک نہ ہو۔
اگر نماز کا کوئی رکن رہ جائے تو اس کا اعادہ ضروری ہے، اس کے ساتھ اسے سجدۂ سہو بھی کرنا ہو گا۔
(فتح الباري: 118/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1222
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1231
1231. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے اور (اتنی دور چلا جاتا ہے کہ) اذان کی آواز نہیں سن پاتا۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے اور جب تکبیر کہی جاتی ہے تو پھر بھاگتا ہے۔ جب تکبیر پوری ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ کر نمازی اور اس کے دل میں وسوسہ اندازی کرتا ہے اور کہتا ہے: فلاں فلاں چیز یاد کرو، جو اسے پہلے یاد نہیں ہوتی، حتی کہ نماز ایسا ہو جاتا ہے کہ نہیں جانتا اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، اس لیے اگر تم میں سے کسی کو معلوم نہ رہے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین یا چار؟ تو بیٹھے بیٹھے دو سہو کے سجدے کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1231]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں محل سجود کی تعیین نہیں کہ وہ سلام سے پہلے ہیں یا بعد میں، اس کی وضاحت ایک اور روایت میں ہے جسے امام دارقطنی ؒ نے بیان کیا ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو دوران نماز میں سہو ہو جائے اور اسے پتہ نہ چل سکے کہ زیادہ رکعات پڑھی ہیں یا کم تو اسے چاہیے کہ سلام سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے۔
(فتح الباري: 135/3)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ شک کی صورت میں اسے سلام سے پہلے دو سجدے کرنے چاہئیں۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 401) (2)
دوران نماز شک گزرنے کی صورت میں کچھ تفصیل ہے، اگر نمازی کو اپنی نماز میں شک پڑ جائے تو وہ درستی کی کوشش کرے اور اپنی مستحکم رائے پر نماز کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے پورا کرے اور سلام پھیر دے۔
سلام کے بعد آخر میں سہو کے دو سجدے کر لے۔
(سنن دارقطني: 40/2، طبع دارالمعرفة)
درست رائے واضح نہ ہو سکے تو شک والی رکعت کو نظرانداز کر دے اور جتنی رکعات یقینی ہیں، انہیں شمار کرے اور یقین پر بنیاد رکھتے ہوئے بقیہ نماز پوری کرے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تم میں سے جب کسی کو دوران نماز میں شک پڑ جائے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین یا چار؟ تو شک کو نظر انداز کر دے اور یقین پر نماز کی بنیاد رکھے۔
پھر سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کرے۔
اگر اس نے پانچ رکعات پڑھی ہوں گی تو یہ سجدے چھٹی رکعت کے قائم مقام ہو جائیں گے۔
اور اگر اس نے پوری نماز (چار رکعت)
ہی پڑھی ہے تو یہ دو سجدے شیطان کی ذلت اور رسوائی کا باعث ہوں گے۔
“ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1272(571)
اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے علم نہ ہو کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو، تو وہ اپنی نماز کو ایک رکعت ہی بنا لے۔
اور اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس نے دو رکعت پڑھی ہیں یا تین تو وہ اپنی نماز کو دو رکعت ہی بنا لے۔
اور اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس نے تین پڑھی ہیں یا چار تو وہ اسے تین رکعت ہی بنا لے۔
پھر جب وہ نماز سے فراغت کے قریب ہو تو سلام پھیرنے سے قبل بیٹھے بیٹھے ہی سہو کے دو سجدے کرے۔
“ (مسندأحمد: 190/1) (3)
دوران نماز میں شک پڑنے کی صورت میں شیخ محمد بن صالح عثیمین کی تحقیق حسب ذیل ہے:
دو معاملات کے درمیان تردد کو شک کہتے ہیں کہ کون سا معاملہ واقع ہے۔
درج ذیل تین حالات میں شک کو کوئی اہمیت نہ دی جائے:
٭ دوران نماز میں محض وہم پیدا ہوا جس کی کوئی حقیقت نہ ہو، جیسا کہ وسوسہ وغیرہ ہوتا ہے۔
٭ جب نمازی کو بکثرت وہم کی بیماری لاحق ہوتی ہے کہ جب بھی نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہم کا شکار ہو جاتا ہے۔
٭ عبادت سے فراغت کے بعد شک پڑ جائے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی جائے جب تک اسے یقین نہ ہو جائے۔
ان تین صورتوں کے علاوہ اگر دوران نماز شک پڑ جائے تو وہ قابل اعتبار ہو گا اور اس کی دو حالتیں ممکن ہیں:
٭ نمازی کا رجحان ایک طرف ہو، اس صورت میں اپنے رجحان کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام پھیرے، پھر دو سہو کے سجدے کرے اور سلام پھیرے، مثلاً ایک نمازی کو نماز ظہر پڑھتے ہوئے شک پڑا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری لیکن رجحان تیسری رکعت کی طرف ہے تو اسے تیسری قرار دے کر اپنی نماز پوری کرے، یعنی چوتھی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے۔
اس کے بعد دو سہو کے سجدے کرے اور سلام پھیرے، جیسا کہ صحیح بخاری (حدیث: 401)
میں ہے۔
٭ اگر نمازی کا رجحان کسی جانب نہیں ہے تو وہ شک کو نظر انداز کر کے یقین پر بنیاد رکھے جو کہ کم رکعات پر بنیاد ہو گی۔
پھر نماز مکمل کر کے سلام سے قبل دو سہو کے سجدے ادا کرے اور سلام پھیر دے، مثلاً:
ایک نمازی کو نماز عصر پڑھتے ہوئے شک گزرا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری لیکن اس کا رجحان کسی جانب نہیں تو کم رکعات پر بنیاد رکھے، یعنی اسے دوسری قرار دے کر پہلا تشہد پڑھے، اس کے بعد دو رکعات پڑھے، پھر سلام سے قبل سہو کے دو سجدے کرے اور سلام پھیر دے، جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث: 1272 (571)
میں ہے۔
(سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1231
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3285
3285. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جب نمازکےلیے اذان کہی جاتی ہے توشیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ جب اذان پوری ہوجائے تو واپس آجاتا ہے۔ پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر دم دبا کر بھاگ نکلتا ہے۔ جب وہ ختم ہوجاتی ہے تو پھر واپس آجاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے اور خیالات ڈالنے شروع کردیتا ہے اور کہتا ہے: فلاں کام یاد کر، فلاں چیز یاد کرو حتیٰ کہ نمازی کو یاد نہیں رہتا کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، تو جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ اسے تین یار چار رکعتیں پڑھنے کا پتہ نہ چلے تو سہو کے دو سجدے کرلے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3285]
حدیث حاشیہ:
1۔
شیطان، اذان سے نفرت کرکے اتنی زورسے بھاگتا ہے کہ اس کی ہوا نکلنے لگ جاتی ہے۔
اس سے شیطان کے وجود اور اس کی گندی صفت اذان کی آواز سن کر پادنا ثابت ہوا۔
اس دور میں بہت سے شیطان نما انسان بھی ایسے ہیں جو اذان جیسی پیاری آواز سے نفرت کرتے ہیں اور اذان کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے لوگ بظاہر انسان لیکن درحقیقت شیطان کی اولاد ہیں۔
2۔
واضح رہے کہ جب نمازی کو تعداد رکعات کے متعلق شک پڑے تو یقینی تعداد پر بنیاد رکھ کر اپنی نماز پوری کرے اور بعد میں دوسجدہ سہو کرے تاکہ بھول کی تلافی ہوجائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3285