ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے ابولزناد سے خبر دی، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کے کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پادتا ہوا بڑی تیزی کے ساتھ پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے اور جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے۔ لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوئی وہ پھر پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ جب تکبیر بھی ختم ہو جاتی ہے تو شیطان دوبارہ آ جاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر فلاں بات یاد کر۔ ان باتوں کی شیطان یاد دہانی کراتا ہے جن کا اسے خیال بھی نہ تھا اور اس طرح اس شخص کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/حدیث: 608]
إذا أذن بالصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لا يسمع التأذين إذا سكت المؤذن أقبل فإذا ثوب أدبر فإذا سكت أقبل فلا يزال بالمرء يقول له اذكر ما لم يكن يذكر حتى لا يدري كم صلى
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 608
حدیث حاشیہ: شیطان اذان کی آواز سن کر اس لیے بھاگتاہے کہ اسے آدم کو سجدہ نہ کرنے کا قصہ یاد آجاتاہے لہٰذا وہ اذان نہیں سننا چاہتا۔ بعض نے کہا اس لیے کہ اذان کی گواہی آخرت میں نہ دینی پڑے۔ چونکہ جہاں اذان کی آواز جاتی ہے وہ سب گواہ بنتے ہیں۔ اس ڈر سے وہ بھاگ جاتاہے کہ جان بچی لاکھوں پائے۔ کتنے ہی انسان نماشیطان بھی ہیں جو اذان کی آواز سن کر سوجاتے ہیں یااپنے دنیاوی کاروبار سے مشغول ہوجاتے ہیں اور نماز کے لیے مسجد میں حاضر نہیں ہوتے۔ یہ لوگ بھی شیطان مردود سے کم نہیں ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت سے نوازے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 608
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 608
فوائد:
➊ ”تثویب“ کا لفظی معنی لوٹانا ہے۔ بعض نے کہا کہ اس کا معنی کپڑا ہلا کر کسی کو مدد کے لیے بلانا ہے، پھر مطلق کسی کو اطلاع دینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ اس حدیث میں تثویب سے مراد اقامت کہنا ہے، تا کہ لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں۔ اس کے علاوہ اذان میں «اَلصَّلَاةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ» کہنے کو بھی تثویب کہتے ہیں۔ یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ تثویب کی کچھ صورتیں بدعت ہیں، مثلاً اذان کے بعد اور اقامت سے پہلے لوگوں کو بلند آواز سے نماز کے لیے بلانا بھی تثویب ہے اور بدعت ہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک مسجد میں ظہر یا عصر کے وقت کسی شخص کو اس طرح کہتے سنا تو انھوں نے فرمایا: ”مجھے یہاں سے لے چلو، بے شک یہ بدعت ہے۔“[ابو داؤد: 538] اسی طرح نماز سے پہلے «الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ» کہنا بھی تثویب ہے اور بدعت ہے۔ اذان کے دوران «حي على خَيْرِ الْعَمَلِ» کہنا بھی تثویب ہے اور بدعت ہے۔ اس کے علاوہ اذان میں «أَشْهَدُ أَنَّ عَلِيًّا وَلِيُّ اللَّهِ، وَصِي رَسُولِ اللهِ، خَلِيْفَةٌ بِلَا فَصْلِ» کے الفاظ بدعی اضافہ ہیں اور «وَصِيُّ رَسُولِ اللهِ، خَلِيفَةٌ بِلَا فَضل» کے الفاظ صاف جھوٹ ہیں۔
➋ اذان سن کر شیطان اس لیے بھاگتا اور اتنی دور چلا جاتا ہے کہ اذان نہ سن سکے۔ [صحيح مسلم 388] میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: ”حتی کہ وہ روحاء مقام پر پہنچ جاتا ہے۔“ اور صحیح مسلم کی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ مدینہ اور روحاء میں چھتیسں (36) میل کا فاصلہ ہے۔
➌ اذان سن کر شیطان کا گوز مارتے ہوئے بھاگنا خوف کی وجہ سے بے اختیار بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اذان کے کلمات کے بوجھ کو برداشت نہ کر سکتا ہو اور جان بوجھ کر بھی، تا کہ اذان کے کلمات نہ سنے۔ علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں: شیطان اذان سے ایسا بھاگتا ہے جیسا چور کوتوال سے۔ بعضوں نے کہا: اذان میں چونکہ نماز کے لیے بلاوا ہوتا ہے اور نماز میں سجدہ ہے، اس کو اپنا قصہ یاد آتا ہے کہ آدم کو سجدہ نہ کرنے سے وہ راندہ درگاہ ہوا، اس لیے اذان سننا نہیں چاہتا۔ بعض نے کہا: اس لیے کہ اذان کی گواہی آخرت میں نہ دینا پڑے، چونکہ جہاں تک اذان کی آواز جاتی ہے وہ سب گواہ بنتے ہیں، آخرت میں گواہی دیں گے، جیسے دوسری حدیث میں ہے۔ [تيسير الباري]
➍ بعض لوگ قبر پر اذان دیتے ہیں، یہ بدعت ہے۔
➎ اذان کی فضیلت میں اور بھی احادیث آئی ہیں جن میں سے بعض کو امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے ابواب میں ذکر کیا ہے، مگر خاص اذان کی فضیلت کے باب میں صرف یہ ایک حدیث بیان کی ہے، کیونکہ دوسرے فضائل بعض دوسرے اعمال کے بھی ہو سکتے ہیں مگر اذان سن کر شیطان کا اس طرح بھاگنا صرف اذان ہی کی خصوصیت ہے۔ [والله اعلم][فتح الباري]
➏ ابن بطال نے فرمایا: معلوم ہوتا ہے کہ اذان کے بعد مسجد سے نکلنے کی ممانعت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس میں اذان سن کر بھاگنے کی شیطان سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ [فتح الباري]
➐ شیطان نماز میں وہ چیزیں یاد کرواتا ہے جنھیں وہ اس وقت یاد نہیں کر رہا ہوتا، کیونکہ ایسی باتوں سے آدمی کو زیادہ دلچسپی ہوتی ہے، خواہ دینی باتیں ہوں یا دنیوی، ہو سکتا ہے کسی علمی نکتے کے ساتھ ہی اس کی نماز کا بیڑا غرق کر دے، اس لیے اس
کے فریب سے ہوشیار رہنا لازم ہے۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 608
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:608
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں اذان کے بجائے تاذین کے الفاظ استعمال کیے ہیں تاکہ الفاظ حدیث سے مطابقت ہو، کیونکہ حدیث میں تاذین کا لفظ آیا ہے۔ اگرچہ تاذین کا لفظ مؤذن کے قول وفعل اور اس کی ہیئت وغیرہ سب کو شامل ہے، لیکن اس مقام پر صرف اذان کے الفاظ مراد ہیں، چنانچہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے: ” تاکہ وہ اس کی آواز نہ سن سکے۔ “(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 856 (389)(2) عنوان سے اس حدیث کے مطابقت بایں طور ہے کہ یہ صرف اذان کی فضیلت ہے جس کی آواز سن کر شیطان بھاگنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اگرچہ اذان کی فضیلت میں متعدد احادیث وارد ہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے صرف مذکورہ حدیث کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ اذان سے متعلق دیگر فضائل کو متعدد نیک اعمال سے حاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ شیطان کے بھاگنے کی خصوصیت صرف اذان سے وابستہ ہے۔ والله أعلم. (3) شیطان سے ہوا کا خارج ہونا بعید از امکان نہیں، کیونکہ اس کابھی ایک جسم ہے جسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے گوز مارنے کی کئی ایک وجوہات ہیں: ٭اذان کی وجہ سے اس پر بوجھ پڑتا ہے، وہ اس دباؤ کی وجہ سے ہوا خارج کرتا ہے۔ ٭وہ اس نازیبا حرکت سے اذان کے ساتھ مذاق کرتا ہے، جیسا کہ غیر مذہب لوگوں کا شیوہ ہو۔ ٭وہ دانستہ یہ کام کرتا ہے تاکہ اذان کی آواز اس کے کانوں میں نہ آسکے، کیونکہ جب قریب شور برپا ہوتو دور کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ (فتح الباري: 113/2)(4) اذان سنتے ہی شیطان اس قسم کے حالات سے دوچار ہوتا ہے جیسے کسی آدمی کو انتہائی پریشان کن اور دہشت ناک معاملہ پیش آگیا ہو۔ ایسے شدید حالات میں خوف کی وجہ سے انسان کے جوڑ ڈھیلے پڑجاتے ہیں اور اسے اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رہتا۔ اس بے بسی کے عالم میں اس کا پیشاب اور ہوا از خود خارج ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ شیطان لعین بھی جب اذان سنتا ہے تو اس کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے، یعنی وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ وہ مقام روحاء تک بھاگتا چلا جاتا ہے تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے اور مقام روحاء مدینہ طیبہ سے 36 میل کے فاصلے پر ہے۔ (فتح الباري: 113/2) (5) اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان، انسان کو دوران نماز میں ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو اسے بھول چکی ہوتی ہیں، کیونکہ بھولی بسری باتوں کی طرف انسان زیادہ متوجہ ہوتا ہے، اس لیے بھولی باتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وگرنہ شیطان کا کام نمازی کے خشوع خضوع کو برباد کرنا ہے، اس کے لیے وہ ہر چارہ کرتا ہے۔ وہ نمازی کو مشغول کرنے کےلیے یاد باتوں کا وسوسہ بھی ڈالتا ہے اور اسے سوچ بچار میں مبتلا کرنے کےلیے بھولی ہوئی باتیں بھی یاد دلاتا ہے۔ ان باتوں کا تعلق دنیوی معاملات سے بھی ہوسکتا ہے اور دینی امور سے بھی حتی کہ قرآنی آیات کے معانی اور اس کے اسرارورموز کے ذریعے سے بھی غافل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (6) تثويب کے لغوی معنی لوٹنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں اس کے کئی ایک معانی ہیں، مثلا: اذان کے بعد مؤذن کا لوگوں کو نماز کے لیے بلانا بھی تثويب کہلاتا ہے۔ شریعت نے اس فعل کو ناپسند کیا ہے۔ اسی طرح صبح کی نماز میں ''الصلاة خير من النوم'' کہنے کو بھی تثويب کہا جاتا ہے، لیکن اس حدیث میں تثويب سے مراد نماز کی اقامت ہے۔ چونکہ امامت کہتے وقت مؤذن دوبارہ اذان کے الفاظ کی طرف لوٹتا ہے اور انھیں دہراتا ہے، اس لیے اقامت کو تثويب کہا گیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ جب شیطان اقامت سنتا ہے تو دوبارہ بھاگ جاتا ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 856(389)(7) اس حدیث سے بظاہر اذان کی فضیلت نماز سے زیادہ معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اذان سے شیطان بھاگ جاتا ہے، جبکہ دوران نماز میں وہ واپس آکر وسوسہ اندازی شروع کردیتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے نماز ہی کو فضیلت اور برتری حاصل ہے، کیونکہ ہر چیز کے خواص الگ الگ ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ایک کم قیمت چیز کے وہ فوائد ہوتے ہیں جو اس سے بہتر چیز میں نہیں پائے جاتے، مثلا: سنامکی کی خاصیت ہے کہ وہ قبض کشا ہے، حالانکہ خمیرہ مروارید سے وہ بہت کم درجے کی ہے، علاوہ ازیں خمیرہ مروارید قبض کشا بھی نہیں ہوتا۔ اذان میں شہادتین کا اعلان ہوتا ہے اور احادیث کے مطابق مؤذن جب اذان دیتا ہے تو حد آواز تک ہر چیز اس کے ایمان وعمل کی گواہی دے گی جبکہ شیطان کو یہ بات گوارا نہیں کہ اس کے عمل و ایمان کی کوئی چیز گواہی دے، اس لیے وہ اذان سننے کی تاب نہیں لاسکتا۔ نماز میں یہ خاصہ نہیں ہے، اگرچہ وہ افضل عبادت ہے۔ نماز میں مناجات اور سرگوشی ہوتی ہے، اس لیے نماز شروع ہوتے ہی شیطان لوٹ آتا ہے اور طرح طرح کی وسوسہ اندازی شروع کردیتا ہے۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 608
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 76
´اذان سننے سے شیطان بھاگ جاتا ہے` «. . . 324- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا نودي بالصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لا يسمع التأذين، فإذا قضي النداء أقبل، حتى إذا ثوب بالصلاة أدبر، حتى إذا قضي التثويب أقبل حتى يخطر بين المرء ونفسه، يقول له: اذكر كذا، اذكر كذا، لما لم يكن يذكر، حتى يظل الرجل أن يدري كم صلى .“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پاد مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے، پھر جب اذان مکمل ہو جاتی ہے تو (دوبارہ) آ جاتا ہے۔ اسی طرح جب نماز کے لئے اقامت کہی جاتی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، پھر جب اقامت مکمل ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے حتیٰ کہ انسان اور اس کے دل کے درمیان وسوسے ڈالتا ہے۔ کہتا ہے کہ فلاں فلاں بات یاد کرو، جو اسے پہلے یاد نہیں ہوتی تھی حتیٰ کہ (وسوسوں کی وجہ سے) آدمی کو پتا نہیں چلتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 76]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 608، من حديث مالك به وفي رواية يحيي بن يحيي: ”للصَّلَاةِ“] تفقه: ➊ انسانوں کی طرح شیطان کی ہوا بھی خارج ہوتی ہے اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ ➋ اذان اور نماز شیطان پر بہت بھاری ہے۔ ➌ لوگوں کے دلوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے بالخصوص دوران نماز میں لہٰذا جب ایسا معاملہ ہوجائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں یعنی تعوذ پڑھ کر اپنی بائیں جانب تین مرتبہ تھتکار دیں۔ [صحيح مسلم: 2203، دارالسلام: 5738] ➎ فرض نماز کے لئے اذان دینا ضروری یا سنت مؤکدہ ہے۔ ➏ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میت کے سوال جواب کے وقت شیطان اسے بہکانے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا اس وقت اذان دینی چاہئے، لیکن اس خیال کا کوئی ثبوت سلف صالحین سے نہیں ہے۔ ➐ بعض لوگ مصیبت ٹالنے کے لئے اذانیں دینا شروع کردیتے ہیں، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ تاہم جنوں اور شیطانوں کو بھگانے کے لئے اذان دینا جائز ہے۔ دیکھئے [التمهيد 309/18، 310] ➑ باجماعت نماز کے لئے اقامت کہنا سنت مؤکدہ ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 324
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 516
´بلند آواز سے اذان کہنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے یہاں تک کہ (وہ اتنی دور چلا جاتا ہے کہ) اذان نہیں سنتا، پھر جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے، لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوتی ہے وہ پھر پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو شیطان دوبارہ آ جاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے، کہتا ہے: فلاں بات یاد کرو، فلاں بات یاد کرو، ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہیں تھیں یہاں تک کہ اس شخص کو یاد نہیں رہ جاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں؟۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 516]
516۔ اردو حاشیہ: ➊ بظاہر شیطان سے مراد ابلیس ہی ہے اور ممکن ہے کہ شیاطین الجن مراد ہوں۔ ➋ زور سے اور آواز سے شیطان سے ریح کا خارج ہونا دلیل ہے کہ اذان کے مبارک کلمات میں وزن ہے۔ ➌ اذان کے وقت شور کرنا شیطانی عمل کے ساتھ مشابہت ہے۔ ➍ شیطان مسلمان نمازیوں پر بار بار حملے کرتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی علاج بیان فرمایا ہے کہ ایسی صورت میں تعوذ پڑھا جائے۔ اور بایئں طرف پھونک ماری جائے، خیال کیا جائے کہ بےنماز لوگوں پر اس کے حملے کتنے شدید ہوں گے۔ ➎ اذان میں آواز خوب بلند کرنی چاہیے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کا شعار ہے۔ لیکن آواز کی یہ بلندی اسی طرح اس حد تک ہو کہ اس میں کراہت اور بھدا پن پیدا نہ ہو کیونکہ رفع صوت کے ساتھ حسن صوت بھی مطلوب اور پسندیدہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 516
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 671
´اذان دینے کی فضیلت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا ۱؎ پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے کہ اذان (کی آواز) نہ سنے، پھر جب اذان ہو چکتی ہے تو واپس لوٹ آتا ہے یہاں تک کہ جب نماز کے لیے اقامت کہی جاتی ہے، تو (پھر) پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، اور جب اقامت ہو چکتی ہے تو (پھر) آ جاتا ہے یہاں تک کہ آدمی اور اس کے نفس کے درمیان وسوسے ڈالتا ہے، کہتا ہے (کہ) فلاں چیز یاد کر فلاں چیز یاد کر، پہلے یاد نہ تھیں یہاں تک کہ آدمی کا حال یہ ہو جاتا ہے کہ وہ جان نہیں پاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔“[سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 671]
671 ۔ اردو حاشیہ: ➊ ”ہوا چھوڑتا (پادتا)۔“ ظاہر ہے کہ اس سے حقیقتاً ہوا چھوڑنا (پادنا) ہی مراد ہے۔ اگر شیطان کھا پی سکتا ہے تو باقی لوازم سے انکار کیوں؟ بعض لوگوں نے اس سے نفرت مراد لی ہے۔ لیکن یہ تاویل بلادلیل ہے۔ واللہ أعلم۔ ➋ ”وسوسے ڈالتا ہے۔“ یعنی اس کی توجہ نماز کی بجائے ادھر ادھر مبذول کراتا ہے۔ لعنه اللہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 671
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1254
´(نماز شک ہونے کی صورت میں) تحری (صحیح بات جاننے کی کوشش) کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، پھر جب اقامت کہہ دی جاتی ہے تو وہ واپس لوٹ آتا ہے یہاں تک کہ آدمی کے دل میں گھس کر وسوسے ڈالتا ہے، یہاں تک کہ وہ جان نہیں پاتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی، لہٰذا جب تم میں سے کوئی اس قسم کی صورت حال دیکھے تو وہ دو سجدے کرے۔“[سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1254]
1254۔ اردو حاشیہ: ➊ شیطان کا گوز مارتا اذان کا اثر بھی ہو سکتا ہے (جیسے گدھے پر زیادہ بوجھ لدا ہو تو وہ گوز مارتا ہے) یا اس لیے کہ اذان نہ سن سکے (گوز کی آواز کی وجہ سے) یا یہ کنایہ ہے کہ اذان شیطان کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ ➋ دیگر روایات میں اذان کے بعد واپسی اور پھر اقامت کے موقع پر بھاگنے کا بھی ذکر ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 608، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 287] یہ روایت مختصر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1254
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:977
977- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”شیطان کسی شخص کی نماز کے دوران اس کے پاس آتا ہے اور اس کی نماز کا معاملہ اس کے لیے مشتبہ کر دیتا ہے یہاں تک کہ آدمی کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس نے کتنی نماز ادا کی ہے، تو جب کسی شخص کو اس طرح کی صورتحال کاسامنا ہو، تو جس وقت وہ بیٹھا ہوا ہواس وقت سجدہ سہو کرلے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:977]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص نماز میں بھول جائے، وہ نماز کے آخر میں دو سجدے (سجدہ سہو) کرے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ شیطان نماز میں بھی انسان کو نہیں چھوڑتا، وہ ہر ممکن اپنی محنت کر رہا ہے، انسان کو ہمیشہ اپنی زبان پر ذکر الٰہی رکھنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 976
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 856
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”شیطان جب نماز کے لیے پکار سنتا ہے تو زور سے ہوا خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے، تاکہ مؤذن کی آواز نہ سنائی دے، جب مؤذن چپ ہو جاتا ہے تو واپس آ جاتا ہے اور (نمازیوں کے دلوں میں) وسوسہ پیدا کرتا ہے۔ تو جب تکبیر سنتا ہے تو پھر بھاگتا ہے تاکہ اس کی آواز سنائی نہ دے، جب وہ خاموش ہو جاتا ہے واپس آ جاتا ہے، اور لوگوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:856]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) أَحَالَ: بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ (2) ضُرَاطٌ: گوز، بلند آواز سے دبر سے ہوا خارج کرنا ہے۔ فوائد ومسائل: اٰذان چونکہ دین حق کا خلاصہ اور نچوڑ ہے، اس لیے اس کو آپﷺ نے دعوت نامہ (مکمل دعوت) کا نام دیا ہے اور شیطان کو دین حق سے چڑ اور عناد ہے، اس لیے اس کا سننا ناگواری کا باعث ہے، اس لیے وہ تکبیر اور اذان دونوں کے سننے کا روادار نہیں اور اس کے لیے ان کا سننا انتہائی پریشانی اور اضطراب کا باعث ہے، اس پریشانی کے عالم میں بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور دور تک چلا جاتاہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 856
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 857
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب مؤذن اذان دیتا ہے، شیطان پیٹھ پھیر کر سر پٹ دوڑتا ہے یا گوز مارتا ہوا جاتا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:857]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: حُصَاص: گوز مارنا، یا تیز بھاگنا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 857
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 858
حضرت سہیل سے روایت ہے کہ مجھے میرے ماں باپ نے بنو حارثہ کی طرف بھیجا اور میرے ساتھ ہمارا ایک لڑکا بھی تھا یا ہمارا دوست تھا، اس کو کسی نے آواز دینے والے نے باغ کے احاطہ سے اس کا نام لے کر آواز دی، اور میرے ساتھی نے احاطہ کے اندر جھانکا تو اسے کچھ نظر نہ آیا، میں نے یہ واقعہ اپنے والد کو بتایا تو اس نے کہا، اگر مجھے معلوم ہوتا تم اس واقعہ سے دوچار ہو گے تو میں تمہیں نہ بھیجتا، لیکن آئندہ تم اگر ایسی آواز سنو تو نماز والی اذان... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:858]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ابو صالح نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کسی کو جن کی آواز سنائی دے تو وہ اذان دے، اس سے بعض حضرات نے یہ نکالا ہے، اگر کسی گھر والوں کو جن تنگ کریں تو وہ اذان دیں۔ بہر حال یہ استنباط ہے کوئی مسنون چیز نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 858
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 859
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے، شیطان گوز مارتا ہوا، پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے، تاکہ اذان سنائی نہ دے تو جب اذان پوری ہو جاتی ہے، آ جاتا ہے، حتیٰ کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے بھاگ جاتا ہے، پھر جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے، پھر آ جاتا ہے، حتیٰ کہ انسان اور اس کے دل کے درمیان گزرتا ہے اور اسے کہتا ہے فلاں چیز یاد کر، فلاں چیز یاد کر، حالانکہ وہ چیزیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:859]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) ثُوِّبَ: تَثوِيب کا مقصد اقامت ہے، کیونکہ ثاب کا معنی لوٹنا ہوتا ہے۔ (2) مؤذن: اذان کے بعد دوبارہ نماز کی طرف بلاتا ہے۔ اس لیے تکبیر کو تثویب کہتے ہیں۔ (3) يخطر: اگر طا پر زیر پڑھیں تو معنی ہو گا، وسوسہ ڈالنا، اگر طا پر پیش پڑھیں تو معنی ہو گا، گزرنا۔ یعنی انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے۔ تاکہ اس کو اصل مقصود سے، دوسری چیز میں مشغول کر دے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 859
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1231
1231. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے اور (اتنی دور چلا جاتا ہے کہ) اذان کی آواز نہیں سن پاتا۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے اور جب تکبیر کہی جاتی ہے تو پھر بھاگتا ہے۔ جب تکبیر پوری ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ کر نمازی اور اس کے دل میں وسوسہ اندازی کرتا ہے اور کہتا ہے: فلاں فلاں چیز یاد کرو، جو اسے پہلے یاد نہیں ہوتی، حتی کہ نماز ایسا ہو جاتا ہے کہ نہیں جانتا اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، اس لیے اگر تم میں سے کسی کو معلوم نہ رہے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین یا چار؟ تو بیٹھے بیٹھے دو سہو کے سجدے کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1231]
حدیث حاشیہ: یعنی جس کو اس قدر بے انداز وسوسے پڑتے ہوں اس کے لیے صرف سہو کے دو سجدے کافی ہیں۔ حسن بصری اور سلف کا ایک گروہ اسی طرف گئے ہیں کہ اس حدیث سے کثیر الوساوس آدمی مراد ہے اورامام بخاری ؒ کے باب سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ (للعلامة الغزنوي) اور امام مالک ؒ، شافعی ؒ اور امام احمد ؒ اس حدیث کو مسلم وغیرہ کی حدیث پر حمل کرتے ہیں جو ابو سعید ؓ سے مروی ہے کہ اگر شک دو یا تین میں ہے تو دو سمجھے اور اگر تین یاچار میں ہے تو تین سمجھے۔ بقیہ کو پڑھ کرسہو کے دو سجدے سلام سے پہلے دے دے۔ (نصر الباري، ج: 1ص: 447)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1231
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1222
1222. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اسے اذان کی آواز نہ سنائی دے۔ اور جب مؤذن خاموش ہو جاتا ہے تو وہ واپس آ جاتا ہے۔ پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو بھاگ نکلتا ہے۔ جب مؤذن تکبیر سے خاموش ہو جاتا ہے تو واپس آ جاتا ہے اور نمازی سے کہتا رہتا ہے کہ فلاں چیز یاد کرو، فلاں چیز یاد کرو جو اسے یاد نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔“ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: جب نمازی ایسی حالت سے دوچار ہو تو وہ بیٹھ کر دو سجدے (بطور سہو) کرے۔ اسے ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1222]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ نماز میں شیطان وساوس کے لیے پوری کوشش کرتا ہے۔ اس لیے اس بارے میں انسان مجبور ہے۔ پس جب نماز کے اندر شیطانی وساوس کی وجہ سے یہ نہ معلوم رہے کہ کتنی رکعتیں پڑھ چکا ہوں تو یقین پر بنا رکھے، اگر اس کے فہم میں نماز پوری نہ ہو تو پوری کر کے سہو کے دو سجدے کر لے۔ (قسطلاني)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1222
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3285
3285. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جب نمازکےلیے اذان کہی جاتی ہے توشیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ جب اذان پوری ہوجائے تو واپس آجاتا ہے۔ پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر دم دبا کر بھاگ نکلتا ہے۔ جب وہ ختم ہوجاتی ہے تو پھر واپس آجاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے اور خیالات ڈالنے شروع کردیتا ہے اور کہتا ہے: فلاں کام یاد کر، فلاں چیز یاد کرو حتیٰ کہ نمازی کو یاد نہیں رہتا کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، تو جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ اسے تین یار چار رکعتیں پڑھنے کا پتہ نہ چلے تو سہو کے دو سجدے کرلے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3285]
حدیث حاشیہ: جیسا شیطان ہے ویسا ہی اس کا گوز مارنا بھی ہے۔ اذان سے نفرت کرکے وہ بھاگتا ہے اور اس زور سے بھاگتا ہے کہ اس کا گوز نکلنے لگتا ہے۔ آمنا و صدقنا ماقال النبي صلی اللہ علیه وسلم بہت سے انسان نما شیطان بھی ہیں جو اذان جیسی پیاری آواز سے نفرت کرتے ہیں، اس کے روکنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ بظاہر انسان در حقیقت ذریات شیطان ہیں۔ قاتلهم اللہ أنی یؤفکون
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3285
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1222
1222. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اسے اذان کی آواز نہ سنائی دے۔ اور جب مؤذن خاموش ہو جاتا ہے تو وہ واپس آ جاتا ہے۔ پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو بھاگ نکلتا ہے۔ جب مؤذن تکبیر سے خاموش ہو جاتا ہے تو واپس آ جاتا ہے اور نمازی سے کہتا رہتا ہے کہ فلاں چیز یاد کرو، فلاں چیز یاد کرو جو اسے یاد نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔“ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: جب نمازی ایسی حالت سے دوچار ہو تو وہ بیٹھ کر دو سجدے (بطور سہو) کرے۔ اسے ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1222]
حدیث حاشیہ: اگر کوئی نمازی شیطانی وساوس کی بنا پر اس قسم کی سوچ و بچار میں پڑ جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی بشرطیکہ نماز کا کوئی رکن ترک نہ ہو۔ اگر نماز کا کوئی رکن رہ جائے تو اس کا اعادہ ضروری ہے، اس کے ساتھ اسے سجدۂ سہو بھی کرنا ہو گا۔ (فتح الباري: 118/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1222
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1231
1231. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے اور (اتنی دور چلا جاتا ہے کہ) اذان کی آواز نہیں سن پاتا۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے اور جب تکبیر کہی جاتی ہے تو پھر بھاگتا ہے۔ جب تکبیر پوری ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ کر نمازی اور اس کے دل میں وسوسہ اندازی کرتا ہے اور کہتا ہے: فلاں فلاں چیز یاد کرو، جو اسے پہلے یاد نہیں ہوتی، حتی کہ نماز ایسا ہو جاتا ہے کہ نہیں جانتا اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، اس لیے اگر تم میں سے کسی کو معلوم نہ رہے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین یا چار؟ تو بیٹھے بیٹھے دو سہو کے سجدے کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1231]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں محل سجود کی تعیین نہیں کہ وہ سلام سے پہلے ہیں یا بعد میں، اس کی وضاحت ایک اور روایت میں ہے جسے امام دارقطنی ؒ نے بیان کیا ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو دوران نماز میں سہو ہو جائے اور اسے پتہ نہ چل سکے کہ زیادہ رکعات پڑھی ہیں یا کم تو اسے چاہیے کہ سلام سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے۔ (فتح الباري: 135/3) اس روایت سے معلوم ہوا کہ شک کی صورت میں اسے سلام سے پہلے دو سجدے کرنے چاہئیں۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 401)(2) دوران نماز شک گزرنے کی صورت میں کچھ تفصیل ہے، اگر نمازی کو اپنی نماز میں شک پڑ جائے تو وہ درستی کی کوشش کرے اور اپنی مستحکم رائے پر نماز کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے پورا کرے اور سلام پھیر دے۔ سلام کے بعد آخر میں سہو کے دو سجدے کر لے۔ (سنن دارقطني: 40/2، طبع دارالمعرفة) درست رائے واضح نہ ہو سکے تو شک والی رکعت کو نظرانداز کر دے اور جتنی رکعات یقینی ہیں، انہیں شمار کرے اور یقین پر بنیاد رکھتے ہوئے بقیہ نماز پوری کرے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جب کسی کو دوران نماز میں شک پڑ جائے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین یا چار؟ تو شک کو نظر انداز کر دے اور یقین پر نماز کی بنیاد رکھے۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کرے۔ اگر اس نے پانچ رکعات پڑھی ہوں گی تو یہ سجدے چھٹی رکعت کے قائم مقام ہو جائیں گے۔ اور اگر اس نے پوری نماز (چار رکعت) ہی پڑھی ہے تو یہ دو سجدے شیطان کی ذلت اور رسوائی کا باعث ہوں گے۔ “(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1272(571) اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے علم نہ ہو کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو، تو وہ اپنی نماز کو ایک رکعت ہی بنا لے۔ اور اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس نے دو رکعت پڑھی ہیں یا تین تو وہ اپنی نماز کو دو رکعت ہی بنا لے۔ اور اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس نے تین پڑھی ہیں یا چار تو وہ اسے تین رکعت ہی بنا لے۔ پھر جب وہ نماز سے فراغت کے قریب ہو تو سلام پھیرنے سے قبل بیٹھے بیٹھے ہی سہو کے دو سجدے کرے۔ “(مسندأحمد: 190/1)(3) دوران نماز میں شک پڑنے کی صورت میں شیخ محمد بن صالح عثیمین کی تحقیق حسب ذیل ہے: دو معاملات کے درمیان تردد کو شک کہتے ہیں کہ کون سا معاملہ واقع ہے۔ درج ذیل تین حالات میں شک کو کوئی اہمیت نہ دی جائے: ٭ دوران نماز میں محض وہم پیدا ہوا جس کی کوئی حقیقت نہ ہو، جیسا کہ وسوسہ وغیرہ ہوتا ہے۔ ٭ جب نمازی کو بکثرت وہم کی بیماری لاحق ہوتی ہے کہ جب بھی نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہم کا شکار ہو جاتا ہے۔ ٭ عبادت سے فراغت کے بعد شک پڑ جائے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی جائے جب تک اسے یقین نہ ہو جائے۔ ان تین صورتوں کے علاوہ اگر دوران نماز شک پڑ جائے تو وہ قابل اعتبار ہو گا اور اس کی دو حالتیں ممکن ہیں: ٭ نمازی کا رجحان ایک طرف ہو، اس صورت میں اپنے رجحان کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام پھیرے، پھر دو سہو کے سجدے کرے اور سلام پھیرے، مثلاً ایک نمازی کو نماز ظہر پڑھتے ہوئے شک پڑا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری لیکن رجحان تیسری رکعت کی طرف ہے تو اسے تیسری قرار دے کر اپنی نماز پوری کرے، یعنی چوتھی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اس کے بعد دو سہو کے سجدے کرے اور سلام پھیرے، جیسا کہ صحیح بخاری (حدیث: 401) میں ہے۔ ٭ اگر نمازی کا رجحان کسی جانب نہیں ہے تو وہ شک کو نظر انداز کر کے یقین پر بنیاد رکھے جو کہ کم رکعات پر بنیاد ہو گی۔ پھر نماز مکمل کر کے سلام سے قبل دو سہو کے سجدے ادا کرے اور سلام پھیر دے، مثلاً: ایک نمازی کو نماز عصر پڑھتے ہوئے شک گزرا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری لیکن اس کا رجحان کسی جانب نہیں تو کم رکعات پر بنیاد رکھے، یعنی اسے دوسری قرار دے کر پہلا تشہد پڑھے، اس کے بعد دو رکعات پڑھے، پھر سلام سے قبل سہو کے دو سجدے کرے اور سلام پھیر دے، جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث: 1272 (571) میں ہے۔ (سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1231
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3285
3285. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جب نمازکےلیے اذان کہی جاتی ہے توشیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ جب اذان پوری ہوجائے تو واپس آجاتا ہے۔ پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر دم دبا کر بھاگ نکلتا ہے۔ جب وہ ختم ہوجاتی ہے تو پھر واپس آجاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے اور خیالات ڈالنے شروع کردیتا ہے اور کہتا ہے: فلاں کام یاد کر، فلاں چیز یاد کرو حتیٰ کہ نمازی کو یاد نہیں رہتا کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، تو جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ اسے تین یار چار رکعتیں پڑھنے کا پتہ نہ چلے تو سہو کے دو سجدے کرلے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3285]
حدیث حاشیہ: 1۔ شیطان، اذان سے نفرت کرکے اتنی زورسے بھاگتا ہے کہ اس کی ہوا نکلنے لگ جاتی ہے۔ اس سے شیطان کے وجود اور اس کی گندی صفت اذان کی آواز سن کر پادنا ثابت ہوا۔ اس دور میں بہت سے شیطان نما انسان بھی ایسے ہیں جو اذان جیسی پیاری آواز سے نفرت کرتے ہیں اور اذان کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بظاہر انسان لیکن درحقیقت شیطان کی اولاد ہیں۔ 2۔ واضح رہے کہ جب نمازی کو تعداد رکعات کے متعلق شک پڑے تو یقینی تعداد پر بنیاد رکھ کر اپنی نماز پوری کرے اور بعد میں دوسجدہ سہو کرے تاکہ بھول کی تلافی ہوجائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3285