321. حضرت معاذہ بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا: جب ہم میں سے کوئی حیض سے پاک ہو تو کیا وہ فوت شدہ نمازوں کی قضا ادا کرے؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: کیا تو حروریہ (خارجی) ہے؟ ہمیں نبی ﷺ کے عہد مبارک میں حیض آتا تھا اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے یا فرمایا: ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:321]
حدیث حاشیہ: 1۔
حافظ ابن حجر ؓ نے حائضہ کے لیے قضائے صلوات کے متعلق عدم واجب پر اجماع نقل کیا ہے صرف خوارج کے ایک گروہ کا موقف ہے کہ حائضہ کو فراغت کے بعد فوت شدہ نمازوں کی قضا دینا ضروری ہے غالباً حضرت عائشہ ؓ نے اسی لیے سائلہ کو حروریہ کہا یہ ایک ایسے مقام کی طرف نسبت ہے جہاں خوارج حضرت علی ؓ کے خلاف اکٹھے ہوئے تھے اور علم بغاوت بلند کیا تھا ان کے بے شمار فرقے ہیں، البتہ یہ عقیدہ سب میں مشترک ہے کہ جو مسئلہ قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے، اسی پر عمل کرنا ضروری ہے، ان کی نظر میں احادیث کی کوئی اہمیت نہیں۔
اس دور کے خوارج یعنی منکرین حدیث کا بھی یہی نظریہ ہے ان کے نزدیک احادیث "أسفارلهو الحدیث" اور
”عجمی سازش
“ ہے، چونکہ حائضہ سے فرضیت نماز کا ساقط ہونا صرف حدیث سے ثابت ہے، قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی ہدایت نہیں، اس لیے وہ حائضہ کے لیے فوت شدہ نمازوں کی قضا ضروری قراردیتے ہیں۔
(فتح الباري: 546/1) 2۔
روایت میں حضرت عائشہ ؓ سے سوال کرنے والی ایک گمنام عورت ہے، دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود حضرت معاذه بنت عبد اللہ العدویہ ہیں۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کے سوال کرنے پر اس نے عرض کیا کہ میں حرویہ نہیں ہوں بلکہ صرف مسئلہ دریافت کرنا چاہتی ہوں۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 763 (335)
حضرت عائشہ ؓ نے حائضہ کے لیے عدم قضائے نماز کی دلیل تو پیش کردی، لیکن اس کی علت بیان نہیں فرمائی۔
علمائے امت نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ نماز کا وجوب یا بار بار اور زیادہ ہے، اتنی زیادہ نمازوں کی قضا میں کافی تنگی اور دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا، جبکہ روزے میں ایسا نہیں ہے، وہ سال میں ایک مرتبہ آتے ہیں۔
(فتح الباري: 547/1)
امام بخاری ؒ نے حضرت جابر ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کی تعلیمات کا بالمعنی ذکر کیا ہے، کیونکہ حدیث جابر کے الفاظ یہ ہیں کہ حائضہ طواف نہیں کرے گی اور نہ نماز ہی پڑھے گی۔
(صحیح البخاري، التمینی حدیث 7230)
اور حدیث ابوسعید خدری ؓ کے الفاظ یہ ہیں کہ عورت کو جب حیض آتا ہے تو وہ نماز نہیں پڑھتی اور نہ روزے ہی رکھتی ہے۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 304)
یہاں ایک اشکال ہے کہ عنوان تو عدم قضا سے متعلق ہے، لیکن تعلیقات سے عدم ایقاع ثابت ہوتا ہے، لہٰذا عنوان اور تعلیقات میں تقریب نام نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عنوان کے دو جز ہیں۔
حائضہ نماز چھوڑے۔
اسے بطور قضا نپ پڑھے پہلے جز کے اثبات کے لیے حضرت جابر ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کی تعلیقات کو پیش کیا ہے کہ حائضہ نماز چھوڑدے اور دوسرا جز کہ وہ طہارت کے بعد قضا بھی نہ کرے، اسے حدیث عائشہ ؓ سے ثابت کیا ہے۔
علامہ اسماعیلی ؒ نے اس روایت کو بایں الفاظ نقل کیا ہے۔
”ہم ان نمازوں کی قضا نہیں دیتی تھیں اور نہ ہمیں اس کے متعلق کہا ہی جاتا تھا۔
“ گویا امام بخاری ؒ نے تعلیقات کو موصول حدیث کے لیے ایک مقدمے کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔
(فتح الباري: 546/1)