الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب التَّفْسِيرِ
قران مجيد كي تفسير كا بيان
1ق. بَابٌ فِي تَفْسِيرِ آيَاتٍ مُّتَفَرِّقَةٍ
1ق. باب: متفرق آیات کی تفسیر کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 7523
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا، وَقُولُوا حِطَّةٌ يُغْفَرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ، فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا الْبَابَ يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ، وَقَالُوا: حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ ".
معمر نے ہمام بن منبہ سے حدیث بیان کی، کہا: یہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے ہمیں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں، پھر انھوں نے کئی احادیث ذکر کیں، ان میں سے (ایک حدیث) یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بنی اسرائیل سے کہا گیا: (شہر کے) دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے جاؤ اور کہو: حطۃ (ہمیں بخش دے) دہم تمھاری خطائیں بخش دیں گے، انھوں نے (اس کے) الٹ کیا، چنانچہ وہ اپنے چوتڑوں کے بل گھسیٹتے ہوئے دروازے سے داخل ہوئے اور انھوں نے (حطہ کے بجائے) "ہمیں بالی میں دانہ چاہیے"کہا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمام بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث میں سے ایک حدیث یہ ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بنو اسرائیل کو حکم دیاگیا،دروازہ سے گزرو،جھکتے ہوئے اور کہنا،معافی کی درخواست ہے،تمہاری خطائیں معاف کردی جائیں گی،توانہوں نے تبدیلی کردی،سودروازے سے گزرے اپنی سرینوں پر گھسٹتے ہوئے اور کہنے لگے،دانہ بالی میں،(مطلوب ہے)"
ترقیم فوادعبدالباقی: 3015
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاريادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة نغفر لكم خطاياكم
   صحيح البخاريادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة
   صحيح البخاريادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة فبدلوا فدخلوا يزحفون على أستاههم وقالوا حبة في شعرة
   صحيح مسلمادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة يغفر لكم خطاياكم فبدلوا فدخلوا الباب يزحفون على أستاههم وقالوا حبة في شعرة
   جامع الترمذيادخلوا الباب سجدا
   صحيفة همام بن منبهادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة يغفر لكم خطاياكم فبدلوا فدخلوا الباب يزحفون على أستاههم وقالوا حبة في شعرة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 7523 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7523  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بنو اسرائیل کے،
جب من اور سلویٰ سے دل بھر گئے اور انہوں نے زمینی غذاؤں کا مطالبہ کیا،
تو انہیں یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے،
سجدہ ریز ہوکر یا عاجزی وفروتنی اختیار کرتے ہوئے،
جھک کر دروازہ سے گزریں،
لیکن انہوں نے اپنی روایتی سر کشی سے کام لیتے ہوئے،
اس حکم کا مذاق اڑایا،
سجدہ یا عاجزی وانکساری کی بجائے،
تکبرو گھمنڈ سے سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے اور معافی کی بجائے،
بالیوں میں دانہ مانگتے ہوئے دروازہ سے گزرے،
اُستَاه،
است (سرین)
کی جمع ہے۔
اور دروازہ کس بستی یا شہر کا تھا،
اس کے بارے میں اختلاف ہے،
حافظ ابن کثیر نے بیت المقدس دروازہ مرادلیا،
بعض نے کہا باب لداوربعض نے باب اریحاء اور بعض نے کہا کوئی مصری شہر مراد ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7523   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2956  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «ادخلوا الباب سجدا» اور جھکے جھکے دروازہ میں داخل ہونا (البقرہ: ۵۸) کے بارے میں فرمایا: بنی اسرائیل چوتڑ کے بل کھسکتے ہوئے داخل ہوئے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2956]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور جھکے جھکے دروازہ میں داخل ہونا (البقرۃ: 58)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2956   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3403  
3403. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ تم سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہوجاؤ اور حِطَّةٌ کہو، یعنی ہمارے گناہ معاف کردے۔ انھوں نے اسے تبدیل کردیا اور ا پنے سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے جبکہ زبان سے حبة في شعرة کہہ رہے تھے۔ اس کے معنی ہیں: بالیوں میں دانے خوب ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3403]
حدیث حاشیہ:
پروردگار سےٹھٹھا کےطور پر یہ کہنا شروع کیا تو خدا کےغضب میں گرفتار ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3403   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4641  
4641. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا: "تم دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور کہو کہ ہمیں معاف کر دیا جائے، ہم تمہارے گناہ معاف کر دیں گے۔" انہوں نے اس حکم کو یوں بدلا کہ وہ سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے اور حِطَّةٌ کے بجائے حبة بالی میں دانہ کہتے داخل ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4641]
حدیث حاشیہ:
بنی اسرائیل کی ایک حرکت کا بیان ہے کہ کس طرح انہوں نے اللہ کے حکم کو بدل ڈالا اور خدا کی لعنت میں گرفتار ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4641   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4479  
4479. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا: تم دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے اور گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے داخل ہو جاؤ۔ لیکن وہ سرینوں کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور معافی مانگنے کے بجائے وہ بالی میں دانہ کہتے رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4479]
حدیث حاشیہ:
خلاصہ یہ کہ بنی اسرائیل نے اللہ کے حکم کو بدل دیا اورالٹا حکم الٰہی کا مذاق اڑانے لگے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ عذاب میں گرفتار ہوئے۔
ایسے گستاخوں کی یہی سزاہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4479   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3403  
3403. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ تم سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہوجاؤ اور حِطَّةٌ کہو، یعنی ہمارے گناہ معاف کردے۔ انھوں نے اسے تبدیل کردیا اور ا پنے سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے جبکہ زبان سے حبة في شعرة کہہ رہے تھے۔ اس کے معنی ہیں: بالیوں میں دانے خوب ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3403]
حدیث حاشیہ:

بنی اسرائل سے کہا گیا تھا کہ جب تم بیت المقدس میں داخل ہو تو سر جھکاتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے اندرجاؤ لیکن انھوں نےسارا پروگرام ہی تبدیل کردیا۔
سرجھکانےکے بجائے اکڑ اکڑ کر داخل ہوئے اور زبان سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی بجائے مہمل کلام بکنے لگے۔
یہ ان کی نادانی اور سرکشی تھی اور ان کا مقصد اللہ کے حکم کی مخالفت کرنا تھا۔
اس بنا پر وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوئے۔
ان پر طاعون کی بیماری مسلط کردی گئی چنانچہ ستر ہزار بنی اسرائیل ایک گھڑی میں لقمہ اجل بن گئے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو ہمیشہ عجز و انکسار اختیار کرتے ہوئےاللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنی چاہیے ان پر اصرار کرتے ہوئے اکڑنا اللہ کی طرف سے عذاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
أعاذنا اللہ منها۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3403   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4479  
4479. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا: تم دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے اور گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے داخل ہو جاؤ۔ لیکن وہ سرینوں کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور معافی مانگنے کے بجائے وہ بالی میں دانہ کہتے رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4479]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے بنی اسرائیل کی شر کشی اور احکام الٰہی سے استہزاء کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ان ظالموں نے تعمیل حکم کے بجائے کردارو گفتا ر دونوں میں مخالفت کی اور دنیا طلبی میں لگ گئے۔
اس پر استزاد یہ کہ وہ تحریف کے بھی مرتکب ہوئے چنانچہ وہ اس جرم کی پاداش میں سنگین سزا سے دوچار ہوئے۔
ان پر طاعون کا عذاب آیا۔

واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اخلاق و کردار کے لحاظ سے اس حد تک زوال پذیر ہو جائے تو پھر قانون الٰہی کے مطابق انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4479   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4641  
4641. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا: "تم دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور کہو کہ ہمیں معاف کر دیا جائے، ہم تمہارے گناہ معاف کر دیں گے۔" انہوں نے اس حکم کو یوں بدلا کہ وہ سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے اور حِطَّةٌ کے بجائے حبة بالی میں دانہ کہتے داخل ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4641]
حدیث حاشیہ:

قرآن کریم میں ہے:
"پھر ان ظالموں نے اس بات کو بدل ڈالا جو ان سے کہی گئی تھی تو ہم نے بھی ان ظلم پیشہ لوگوں پر ان کے فسق ونافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل کیا۔
" (البقرة: 59/2)
بہرحال ان بدبختوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پوری پوری نافرمانی کی۔
فتح کے بعد ان میں عجزوانکسار کے بجائے فخروگھمنڈ پیدا ہوگیا اور وہ اترانے لگے۔

اس واقعے سے ان کی نافرمانی اور سرکشی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جو ان کے اندر پیدا ہوگئی تھی اور احکام الٰہی سے تمسخر اور استہزاء کا بھی پتہ چلتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اخلاق و کردار کے لحاظ سے زوال پذیر ہوجائے تو اس کا معاملہ احکام الٰہیہ کے ساتھ اسی طرح کا ہوجاتا ہے جیسا کہ بنی اسرائیل نے کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں اس خلاف ورزی کی پاداش میں طاعون جیسے موذی مرض میں مبتلا کردیا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
یہ طاعون اسی رجز اورعذاب کاحصہ ہے جو تم سے پہلے کچھ لوگوں پر نازل ہوا۔
(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5772(2218)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4641