الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ
زہد اور رقت انگیز باتیں
6. باب حِفْظِ اللِّسَانِ
6. باب: زبان کو روکنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 7482
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ الدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مَا يَتَبَيَّنُ مَا فِيهَا، يَهْوِي بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ".
عبد العزیز دراوردی نے یزید بن رضی اللہ عنہ سے انھو ں نے محمد بن ابرا ہیم سے انھوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بندہ کوئی ایسا کلمہ کہہ دیتا ہے کہ اس کو واضح طور پر پتہ نہیں ہو تا کہ اس میں کیا ہے، اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں اس سے زیادہ دور جاگرتا ہے جتنی دوری مشرق اور مغرب کے درمیان ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بندہ ایک ایساکلمہ بول دیتا ہے،جس کی حقیقت وگہرائی احاطہ پر غور نہیں کرتا،اس کے سبب وہ دوزخ میں اتنا نیچے گرجاتاہے کہ وہ فاصلہ مشرق ومغرب کے درمیان سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2988
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاريالعبد ليتكلم بالكلمة ما يتبين فيها يزل بها في النار أبعد مما بين المشرق
   صحيح البخاريالعبد ليتكلم بالكلمة من رضوان الله لا يلقي لها بالا يرفعه الله بها درجات العبد ليتكلم بالكلمة من سخط الله لا يلقي لها بالا يهوي بها في جهنم
   صحيح مسلمالعبد ليتكلم بالكلمة ينزل بها في النار أبعد ما بين المشرق والمغرب
   صحيح مسلمالعبد ليتكلم بالكلمة ما يتبين ما فيها يهوي بها في النار أبعد ما بين المشرق والمغرب
   جامع الترمذيالرجل ليتكلم بالكلمة لا يرى بها بأسا يهوي بها سبعين خريفا في النار
   سنن ابن ماجهالرجل ليتكلم بالكلمة من سخط الله لا يرى بها بأسا فيهوي بها في نار جهنم سبعين خريفا

   صحيح البخاريالعبد ليتكلم بالكلمة ما يتبين فيها يزل بها في النار أبعد مما بين المشرق
   صحيح البخاريالعبد ليتكلم بالكلمة من رضوان الله لا يلقي لها بالا يرفعه الله بها درجات العبد ليتكلم بالكلمة من سخط الله لا يلقي لها بالا يهوي بها في جهنم
   صحيح مسلمالعبد ليتكلم بالكلمة ينزل بها في النار أبعد ما بين المشرق والمغرب
   صحيح مسلمالعبد ليتكلم بالكلمة ما يتبين ما فيها يهوي بها في النار أبعد ما بين المشرق والمغرب
   جامع الترمذيالرجل ليتكلم بالكلمة لا يرى بها بأسا يهوي بها سبعين خريفا في النار
   سنن ابن ماجهالرجل ليتكلم بالكلمة من سخط الله لا يرى بها بأسا فيهوي بها في نار جهنم سبعين خريفا

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 7482 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7482  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بعض دفعہ انسان بلا سوچے سمجھے کسی حکمران کی خوشامد میں کوئی بات کہہ دیتا ہے،
یا اس کے سامنے کسی مسلمان کے بارے میں کوئی بات کہہ دیتا ہے،
جس سے حکمران کو اس کے قتل کا بہانا مل جاتا ہے،
یا بدگوئی اور فحش کلامی کرتاہے،
یا بلا سوچے سمجھے ہنسی مذاق میں کسی دینی حکم پر طعن کردیتا ہے،
اس کا مذاق اڑاتا ہے،
تو یہ چیزیں اس کی تباہی و بربادی کا باعث بن جاتی ہے،
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی حفاظت پر بہت زور دیا ہے اور خاموشی کو نجات قرار دیاہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7482   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2314  
´غیر شرعی طور پر ہنسنے ہنسانے کی بات کرنے والے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کبھی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس میں وہ خود کوئی حرج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جائے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2314]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ایک شخص دوسروں کو ہنسانے کے لیے اور ان کی دلچسپی کی خاطراپنی زبان سے اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے یا بناوٹی اور جھوٹی بات کہتا ہے،
اور کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ وہ باعث گناہ اور لا ئق سزا ہے حالانکہ وہ اپنی اس بات کے سبب جہنم کی سزاکا مستحق ہوتا ہے،
معلوم ہوا کہ دوسروں کو ہنسانے اورانہیں خوش کرنے کے لیے کوئی ایسی ہنسی کی بات نہیں کرنی چاہئے جو گناہ کی بات ہواور باعث عذاب ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2314   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6478  
6478. حضرت ابو ہریرہ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بے شک بندہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے بات منہ سے نکالتا ہے، اسے وہ کچھ اہمیت بھی نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے اللہ اس کے درجات بلند کر دیتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضی کا باعث ہوتا ہے اس کے ہاں اس کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہوتی لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم چلاجاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6478]
حدیث حاشیہ:
بعض اوقات انسان ایسی گفتگو کرتا ہے اور اس پر مرتب ہونے والے، نتائج پر غور نہیں کرتا تو اس کی پاداش میں وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے، اس لیے شریعت میں زبان کے استعمال کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔
حدیث میں ہے:
جب آدمی صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء زبان کی منت سماجت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ ہم تیرے ہی رحم و کرم پر ہیں اگر تو ٹھیک رہی تو ہم بھی ٹھیک رہیں گے اگر تو نے غلط روی اختیار کی تو ہم بھی بھٹک جائیں گے۔
(جامع الترمذي:
الزھد، حدیث: 2407)

ایک دوسری حدیث میں دل کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ انسانی اعضاء کے درست رہنے کا دارومدار اس کے دل پر موقوف ہے۔
ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ اصل حیثیت تو دل ہی کی ہے لیکن ظاہری اعضاء میں چونکہ زبان اس کی ترجمان ہے، اس لیے دونوں کی مذکورہ نوعیت بیان کی گئی ہے۔
اگر یہ دونوں ٹھیک ہیں تو خیریت بصورت دیگر انسان کی خیریت نہیں ہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6478