الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا
جنت اس کی نعمتیں اور اہل جنت
11. باب يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَقْوَامٌ أَفْئِدَتُهُمْ مِثْلُ أَفْئِدَةِ الطَّيْرِ:
11. باب: جنت کے ایک گروہ کا بیان جن کے دل چڑیوں کے سے ہوں گے۔
حدیث نمبر: 7163
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا بِهِ أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ، قَالَ: اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ وَهُمْ نَفَرٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا يُجِيبُونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ، قَالَ: فَذَهَبَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا: السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، قَالَ: فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، قَالَ: فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمْ يَزَلِ الْخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدَهُ حَتَّى الْآنَ ".
ہمام بن منبہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: یہ وہ احادیث ہیں جو ہمیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں ان میں سے (ایک) یہ ہے کہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی (پسندیدہ) صورت پر پیدا فرمایا، ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا جب ان کو تخلیق فرمالیا تو فرمایا: جائیں اور اس (سامنے والی) جماعت کو سلام کہیں۔اور وہ فرشتوں کی جماعت ہے جو بیٹھے ہوئے ہیں اور جس طرح وہ آپ کو سلام کہیں اسے غور سے سنیں، وہی آپ کا اور آپ کی اولاد کا سلام ہو گا۔فرمایا وہ گئے اور کہا: السلام علیک انھوں نے (جواب میں) کہا: السلام علیک ورحمۃ اللہ فرمایا: انھوں نےان (آدم علیہ السلام) کے لیے ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر وہ شخص جو جنت میں داخل ہو گا آدم علیہ السلام کی (اسی) صورت پر ہوگا اور ان کی قامت (جنت میں) ساٹھ ہاتھ تھی پھر ان کے بعد آج تک (ان کی اولاد کی) خلقت چھوٹی ہوتی رہی ہے۔"
حضرت ہمام بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سی احادیث لکھوائیں ان میں سے ایک حدیث یہ ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ عزوجل نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا:ان کا طول ساٹھ ہاتھ تھا، چنانچہ پیدا کرنے کے بعد فرمایا، جاؤ اس جماعت کو سلام کہو، وہ فرشتوں کی جماعت بیٹھی ہوئی تھی، چنانچہ سنو وہ تمھیں کس طرح سلام کہتے ہیں وہی تمھارا اور تمھاری اولاد کا سلام ہوگا، سووہ گئے اور کہا السلام علیکم،انھوں نے کہا السلام علیک ورحمۃ اللہ اس طرح انھوں نے رحمتہ اللہ کا اضافہ کیا، چنانچہ جو شخص جنت میں داخل ہو گا، اس کی صورت آدم والی ہو گی اور اس کا طول ساٹھ ہاتھ ہو گا، اس کے بعد اب تک لوگوں کا قد کم ہوتا رہا۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2841
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاريخلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعا فلما خلقه قال اذهب فسلم على أولئك النفر من الملائكة جلوس فاستمع ما يحيونك فإنها تحيتك وتحية ذريتك فقال السلام عليكم فقالوا السلام عليك ورحمة الله فزادوه ورحمة الله فكل من يدخل الجنة على صورة آدم فلم يزل الخلق ينقص بع
   صحيح البخاريخلق الله آدم وطوله ستون ذراعا ثم قال اذهب فسلم على أولئك من الملائكة فاستمع ما يحيونك تحيتك وتحية ذريتك فقال السلام عليكم فقالوا السلام عليك ورحمة الله فزادوه ورحمة الله فكل من يدخل الجنة على صورة آدم فلم يزل الخلق ينقص حتى الآن
   صحيح مسلمخلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعا فلما خلقه قال اذهب فسلم على أولئك النفر وهم نفر من الملائكة جلوس فاستمع ما يجيبونك فإنها تحيتك وتحية ذريتك قال فذهب فقال السلام عليكم فقالوا السلام عليك ورحمة الله قال فزادوه ورحمة الله قال فكل من يدخل الجنة ع
   جامع الترمذيخلق الله آدم ونفخ فيه الروح عطس فقال الحمد لله فحمد الله بإذنه فقال له ربه يرحمك الله يا آدم اذهب إلى أولئك الملائكة إلى ملإ منهم جلوس فقل السلام عليكم قالوا وعليك السلام ورحمة الله ثم رجع إلى ربه فقال إن هذه تحيتك وتحية بنيك بينهم فقال الله له ويداه مقبو
   صحيفة همام بن منبهخلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعا فلما خلقه قال اذهب فسلم على أولئك النفر وهم نفر من الملائكة جلوس فاستمع ما يحيونك فإنها تحيتك وتحية ذريتك قال فذهب فقال السلام عليكم فقالوا وعليك السلام ورحمة الله فزادوا ورحمة الله قال فكل من يدخل الجنة على صورة آدم
   مسندالحميدي

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 7163 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7163  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آدم علیہ السلام کی صورت کے بارے میں،
تفصیل كتاب البر والصلة میں گزر چکی ہے اور اسلام کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا بہتر ہے،
اگرچہ السلام علیکم کہنا بھی درست ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7163   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1153  
1153- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں: کوئی بھی شخص یہ نہ کہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہرے کو قبیح کرے اور اس شخص کے چہرے کو قبیح کرے جو تمہارے چہرے کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1153]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی کو ایسی بددعا نہیں دینی چاہیے جس کا تعلق چہرے کے ساتھ ہو، بعض لوگ جب کسی کا عیب بیان کرتے ہیں تو اس کی شکل وصورت کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، لمبے ناک والا، اونچی پیشانی والا، لمبے دانتوں والا وغیرہ۔
اگر انسان غور کرے تو ان چیزوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے، جیسے اس نے چاہا بنا دیا، اس میں کسی کا کوئی کمال نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں عیب نکالنا بڑی جرٱت اور بہت بڑا جرم ہے ہےکوئی اللہ کی مثل کچھ بنانے والا کسی انسان کی شکل و صورت میں عیب نکالنا درحقیقت اللہ تعالیٰ پر عیب جوئی ہے۔
اس حدیث میں صرف چہرے کا ذکر ہے، اور اس سے چہرے کا محترم ہونا ثابت ہوتا ہے، جسم کے کسی بھی عضو کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے، نیز چہرے پر مارنا بھی منع ہے۔ (صحیح البخاری، صحیح مسلم)
«‏‏‏‏فـان الله خلق آدم على صورته» سے بعض کا یہ مراد لینا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے، باطل مردود ہے، بلکہ صحيح وہی ہے جو مترجم نے حدیث کا ترجمہ کیا ہے، یقینا اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اس کی صورت پر پیدا کیا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1152   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6227  
6227. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے حضرت آدم ؑ کو ان کی صورت پر بنایا۔ ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کیا تو فرمایا: جاؤ ان بیٹھے ہوئے فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں؟ کیونکہ وہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا، چنانچہ حضرت آدمی ؑ نے کہا: ''السلام علیکم'' انہوں نے جواب دیا:''السلام علیکم ورحمة اللہ'' انہوں نے حضرت آدم ؑ کے سلام پر''ورحمة اللہ'' کا اضافہ کیا۔ اب جو شخص بھی جنت میں جائے گا وہ آدم کی صورت کے مطابق ہوکر جائے گا۔ اس کے بعد اس کے بعد خلقت کا قد کم ہوتا گیا۔ اب تک ایسا ہی ہو رہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6227]
حدیث حاشیہ:
ممکن ہے کہ آئندہ اور کم ہو جائے یہ زیادتی اور کمی ہزاروں برس میں ہوتی ہے۔
انسان اس کو کیا دیکھ سکتا ہے۔
جو لوگ اس قسم کی احادیث میں شبہ کرتے ہیں ان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت آدم کی صحیح تاریخ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے تو معلوم نہیں کہ حضرت آدم کو کتنے برس گزر چکے ہیں۔
نہ یہ معلوم ہے کہ آئندہ دنیا کتنے برس اور رہے گی اس لئے قد وقامت کا کم ہو جانا قابل انکار نہیں۔
''خلق اللہ آدم علی صورته'' کی ضمیر آدم علیہ السلام کی طرف لوٹ سکتی ہے یعنی آدم کی صور ت پر جو اللہ کے علم میں تھی۔
بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ آدم پیدائش سے اسی صورت پر تھے جس صورت پر ہمیشہ رہے یعنی یہ نہیں ہوا کہ پیدا ہوتے وقت وہ چھوٹے بچے ہوں پھر بڑے ہوئے ہوں جیسا ان کی اولاد میں ہوتا ہے۔
بعض نے ضمیر کو اللہ کی طرف لوٹایا ہے مگر یہ آیت ﴿لَیسَ کَمِثلِهِ شيئ﴾ کے خلاف ہوگا۔
واللہ أعلم بالصواب وآمنا باللہ وبرسوله صلی اللہ علیه وسلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6227   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3326  
3326. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو پیداکیا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو سلام کرو، نیز غور سے سنو وہ تمھیں کیا جواب دیتے ہیں؟وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا، چنانچہ حضرت آدم ؑ نے کہا: "السلام علیکم"تم پر اللہ کی سلامتی ہو۔ فرشتوں نے جواب دیا: "السلام علیک ورحمۃ اللہ"تجھ پر سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔ انھوں نے ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا۔ بہرحال جو لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہ سب حضرت آدم ؑ کی شکل وصورت پر ہوں گے گویہ لوگ ابتدائے پیدائش سے اب تک جسامت میں کم ہورہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3326]
حدیث حاشیہ:
چھوٹے ہوتے ہوتے اس حد کو پہنچے جس حد پر یہ امت ہے۔
ابن قتیبہ نے کہا کہ آدم بے ریش و بروت تھے، گھونگروالے بال اور نہایت خوبصورت تھے۔
قسطلانی نے کہا بہشتی سب ان ہی کی صورت اور حسن و جمال کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے اور دنیا میں جو رنگ کی سیاہی یا بدصورتی ہے وہ جاتی رہے گی۔
یا اللہ راقم کو بھی بایں صورت جنت کا داخلہ نصیب کیجےؤ اور ان سب بھائیوں مردوں عورتوں کو بھی جو بخاری شریف کا یہ مقام مطالعہ فرماتے وقت باآواز بلند آمین کہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3326   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6227  
6227. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے حضرت آدم ؑ کو ان کی صورت پر بنایا۔ ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کیا تو فرمایا: جاؤ ان بیٹھے ہوئے فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں؟ کیونکہ وہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا، چنانچہ حضرت آدمی ؑ نے کہا: ''السلام علیکم'' انہوں نے جواب دیا:''السلام علیکم ورحمة اللہ'' انہوں نے حضرت آدم ؑ کے سلام پر''ورحمة اللہ'' کا اضافہ کیا۔ اب جو شخص بھی جنت میں جائے گا وہ آدم کی صورت کے مطابق ہوکر جائے گا۔ اس کے بعد اس کے بعد خلقت کا قد کم ہوتا گیا۔ اب تک ایسا ہی ہو رہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6227]
حدیث حاشیہ:
(1) (خلق الله آدم علی صورته)
کے دو مفہوم حسب ذیل ہیں:
٭ حضرت آدم علیہ السلام پیدائش سے اسی شکل و صورت پر تھے جس صورت پر وہ ہمیشہ رہے۔
ایسا نہیں ہوا کہ پیدائش کے وقت وہ چھوٹے ہوں پھر آہستہ آہستہ بڑے ہوتے گئے جیسا کہ ان کی اولاد میں ہوتا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی ذاتی صورت پر پیدا کیا جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی دوسرے کو مارے تو اس کے چہرے پر مارنے سے بچے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔
(مسند أحمد: 251/2)
اس کی تائید ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
چہروں کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ آدم کو رحمٰن کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے۔
(السنة لابن أبي عاصم، حدیث: 517)
یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم تائید میں پیش کی جا سکتی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ''صورة الرحمٰن'' کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد صفت رحمٰن ہے۔
(فتح الباري: 6/11)
لیکن یہ طریقہ اسلاف کے منہج کے خلاف ہے۔
سلف کے نزدیک کسی قسم کی تاویل کرنے تکییف اور تمثیل، یعنی کیفیت بیان کرنے یا مخلوق کی صورت کے مشابہ قرار دینے کے بغیر اللہ تعالیٰ کے لیے صفت صورت ثابت ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک دوسرے مقام پر امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔
(فتح الباري: 226/5)
اللہ تعالیٰ کی توحید اسماء و صفات کے متعلق مکمل بحث ہم نے آگے کتاب التوحید میں کی ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے سلام کی ابتدا ثابت کی ہے کہ اس کا آغاز کہاں سے اور کیسے ہوا۔
بہرحال بوقت ملاقات ''السلام علیکم'' سے بہتر کوئی کلمہ نہیں ہے۔
اگر ملنے والے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ان میں محبت و اخوت یا قرابت کا کوئی تعلق ہے تو اس کلمے میں محبت و مسرت اور اکرام و احترام کا پورا پورا اظہار ہے اور اگر پہلے سے کوئی تعارف نہیں تو یہ کلمہ اعتماد و خیر سگالی کا ذریعہ بنتا ہے اور اس کے ذریعے سے ہر ایک دوسرے کو اطمینان دلاتا ہے کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں اور ہمارے درمیان ایک روحانی رشتہ اور تعلق ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6227   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،صحیح بخاری6227  
... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو اور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں ... [صحيح بخاري 6227]
ایک دوسرے کو سلام کہنا
سوال:
قرآن مجید میں الفاظ «سلام ٌ عليكم» ہیں۔ اسی طرح صحیح ابن حبان میں بھی ہیں، جیسا کہ امام دمیاطی نے المتجرالرابح میں نقل فرمایا۔
سوال یہ ہے کہ اکثر لوگ ایک دوسرے کو سلام کرتے وقت «سلامُ عليكم» کہتے ہیں۔ جب کہ سلام کے حوالے سے اکثر احادیث میں «السلامُ عليكم» کے الفاظ ہیں جیسا کہ امام نووی نے ریاض الصالحین میں اکثر ایسی احادیث کو جمع کر دیا ہے۔
کیا «سلامُ عليكم» کہنا بھی جائز ہے؟
الجواب:
«السلامُ عليكم» کہنا زیادہ بہتر ہے، جیسا کہ احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے۔ مثلاًً دیکھئے: [صحيح بخاري: 6227، صحيح مسلم: 2841 / 7163]
سلام ٌ علیکم بھی صحیح ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ دیکھئے: [سورة الانعام: 54، الاعراف: 46، الزمر: 73]
اسی طرح صرف سلام ٌ اور سلامًا بھی آیا ہے۔ مثلاًً دیکھئے: [سورة هود: 69]
لیکن کسی آیت یا حدیث میں سلامُ علیکم نہیں آیا اور نہ ایسے الفاظ سلف صالحین سے آئے ہیں، لہٰذا «سلامُ عليكم» (یعنی م کی ایک پیش کے ساتھ) نہیں بلکہ «السلام عليكم» کہنا چاہئے جو کہ مسنون ہے۔
یاد رہے کہ سلام کہناسنت ہے اور اس کا جواب دینا ضروری (فرض وواجب) ہے، لہٰذا سلام کہنے والے کا جواب بھی صحیح اور بہتر طریقے سے دینا چاہئے۔ مثلاًً «السلام عليكم» کا «وعليكم السلام ورحمة الله» یا «وعليكم السلام» کے الفاظ سے جواب دینا چاہئے۔
جو لوگ سلام کے جواب میں صرف سر ہلا کر یا مسنون الفاظ کے بغیر جواب دیتے ہیں، وہ سخت غلطی پر ہیں، بلکہ گناہ کے مرتکب ہیں۔
فائدہ: «السلام عليكم و رحمة الله و بركاته» کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ دیکھئے: [سنن ابي داود: 5195 وسنده حسن، سنن الترمذي: 2689 و قال: حسن صحيح غريب]
اصل مضمون کے لئے دیکھئے توضیح الاحکام (ج 3 ص 278 اور 279)
نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 84 صفحہ 12)
   ماہنامہ الحدیث حضرو، حدیث/صفحہ نمبر: 84